كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الصَّبْرِ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
باب: صبر وہی ہے جو مصیبت آتے ہی کیا جائے
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا‘ ان سے شعبہ نے ان سے ثابت نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے نقل کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صبر تو وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں کیا جائے۔
تشریح :
ترجمتہ الباب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے مصیبت کے وقت صبر کی فضیلت بیان کی کہ اس سے صابر بندے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق ملتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ والے قول کو حاکم نے مستدرک میں وصل کیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صلوات اور رحمت کو تو جانور کے دونوں طرف کے بوجھے قرار دیا اور بیچ کا بوجھ جو پیٹھ پر رہتا ہے اسے اولئک ہم المہتدون سے تعبیر فرمایا۔ پیچھے بیان ہوا ہے کہ ایک عورت ایک قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی آپ نے اسے منع فرمایا تو وہ خفا ہوگئی۔ پھر جب اس کو آپ کے متعلق علم ہوا تو وہ دوڑی ہوئی معذرت خواہی کے لیے آئی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کیا رکھا ہے صبر تو مصیبت کے شروع ہی میں ہوا کرتا ہے۔
ترجمتہ الباب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے مصیبت کے وقت صبر کی فضیلت بیان کی کہ اس سے صابر بندے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق ملتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ والے قول کو حاکم نے مستدرک میں وصل کیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صلوات اور رحمت کو تو جانور کے دونوں طرف کے بوجھے قرار دیا اور بیچ کا بوجھ جو پیٹھ پر رہتا ہے اسے اولئک ہم المہتدون سے تعبیر فرمایا۔ پیچھے بیان ہوا ہے کہ ایک عورت ایک قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی آپ نے اسے منع فرمایا تو وہ خفا ہوگئی۔ پھر جب اس کو آپ کے متعلق علم ہوا تو وہ دوڑی ہوئی معذرت خواہی کے لیے آئی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کیا رکھا ہے صبر تو مصیبت کے شروع ہی میں ہوا کرتا ہے۔