كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ مَنْ جَلَسَ عِنْدَ المُصِيبَةِ يُعْرَفُ فِيهِ الحُزْنُ صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا حِينَ قُتِلَ الْقُرَّاءُ فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِنَ حُزْنًا قَطُّ أَشَدَّ مِنْهُ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
باب: جو مصیبت کے وقت ایسا بیٹھے کہ
ہم سے عمروبن علی نے بیان کیا‘ ان سے محمد بن فضیل نے بیان کیا‘ ان سے عاصم احول نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ جب قاریوں کی ایک جماعت شہید کردی گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ تک قنوت پڑھتے رہے۔ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں سے زیادہ کبھی غمگین رہے ہوں۔
تشریح :
یہ شہدائے کرام قاریوں کی ایک معزز ترین جماعت تھی جو سترنفوس پر مشتمل تھی۔ حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ کے لفظوں میں اس جماعت کا تعارف یہ ہے: وکانوا من اوزاع الناس ینزلون الصفۃ یتفقہون العلم ویتعلمون القرآن وکانوا رداءللمسلمین اذانزلت بہم نازلۃ وکانوا حقا عمار المسجد ولیوث الملاحم بعثہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی اہل نجد من بنی عامر لیدعوہم الی الاسلام ویقروا علیہم القرآن فلما نزلوا بئرمعونۃ قصدہم عامر بن الطفیل فی احباءمن بنی سلیم وہم رعل وذکو ان وعصیۃ فقاتلوہم ( فاصیبوا ) ای فقتلوا جمیعا وقیل ولم ینج منہم الاکعب بن زید الانصاری فانہ تخلص وبہ رمق وظنوا انہ مات فعاش حتی استشہدیوم الخندق واسر عمرو بن امیۃ الضمری وکان ذلک فی السنۃ الرابعۃ من الہجرۃ ای فی صفر علی راس اربعۃ اشہر من احد فحزن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حزنا شدیدا قال انس رضی اللہ عنہ مارایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجد علی احدما وجد علیہم ( مرعاۃ ج:2ص222 ) یعنی بعض اصحاب صفہ میں سے یہ بہترین اللہ والے بزرگ تھے جو قرآن پاک اور دینی علوم میں مہارت حاصل کرتے تھے اور یہ وہ لوگ تھے کہ مصائب کے وقت ان کی دعائیں اہل اسلام کے لیے پشت پناہی کا کام دیتی تھی۔ یہ مسجد نبوی کے حقیقی طور پر آباد کرنے والے اہل حق لوگ تھے جو جنگ وجہاد کے مواقع پر بہادر شیروں کی طرح میدان میں کام کیا کرتے تھے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے قبیلہ بنو عامر میں تبلیغ اسلام اور تعلیم قرآن مجید کے لیے روانہ فرمایا تھا۔ جب یہ بئر معونہ کے قریب پہنچے تو عامر بن طفیل نامی ایک غدار نے رعل اور ذکوان نامی قبائل کے بہت سے لوگوں کو ہمراہ لے کر ان پر حملہ کردیا اور یہ سب وہاں شہید ہوگئے۔ جن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے ایک ماہ تک قبائل رعل وذکوان کے لیے قنوت نازلہ پڑھی۔ یہ 4ھ کا واقعہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ ان میں سے صرف ایک بزرگ کعب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کسی طرح بچ نکلے۔ جسے ظالموں نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ یہ بعد تک زندہ رہے۔ یہاں تک کہ جنگ خندق میں شہید ہوئے۔ رضی اللہ عنہم آمین
یہ شہدائے کرام قاریوں کی ایک معزز ترین جماعت تھی جو سترنفوس پر مشتمل تھی۔ حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ کے لفظوں میں اس جماعت کا تعارف یہ ہے: وکانوا من اوزاع الناس ینزلون الصفۃ یتفقہون العلم ویتعلمون القرآن وکانوا رداءللمسلمین اذانزلت بہم نازلۃ وکانوا حقا عمار المسجد ولیوث الملاحم بعثہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی اہل نجد من بنی عامر لیدعوہم الی الاسلام ویقروا علیہم القرآن فلما نزلوا بئرمعونۃ قصدہم عامر بن الطفیل فی احباءمن بنی سلیم وہم رعل وذکو ان وعصیۃ فقاتلوہم ( فاصیبوا ) ای فقتلوا جمیعا وقیل ولم ینج منہم الاکعب بن زید الانصاری فانہ تخلص وبہ رمق وظنوا انہ مات فعاش حتی استشہدیوم الخندق واسر عمرو بن امیۃ الضمری وکان ذلک فی السنۃ الرابعۃ من الہجرۃ ای فی صفر علی راس اربعۃ اشہر من احد فحزن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حزنا شدیدا قال انس رضی اللہ عنہ مارایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجد علی احدما وجد علیہم ( مرعاۃ ج:2ص222 ) یعنی بعض اصحاب صفہ میں سے یہ بہترین اللہ والے بزرگ تھے جو قرآن پاک اور دینی علوم میں مہارت حاصل کرتے تھے اور یہ وہ لوگ تھے کہ مصائب کے وقت ان کی دعائیں اہل اسلام کے لیے پشت پناہی کا کام دیتی تھی۔ یہ مسجد نبوی کے حقیقی طور پر آباد کرنے والے اہل حق لوگ تھے جو جنگ وجہاد کے مواقع پر بہادر شیروں کی طرح میدان میں کام کیا کرتے تھے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے قبیلہ بنو عامر میں تبلیغ اسلام اور تعلیم قرآن مجید کے لیے روانہ فرمایا تھا۔ جب یہ بئر معونہ کے قریب پہنچے تو عامر بن طفیل نامی ایک غدار نے رعل اور ذکوان نامی قبائل کے بہت سے لوگوں کو ہمراہ لے کر ان پر حملہ کردیا اور یہ سب وہاں شہید ہوگئے۔ جن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے ایک ماہ تک قبائل رعل وذکوان کے لیے قنوت نازلہ پڑھی۔ یہ 4ھ کا واقعہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ ان میں سے صرف ایک بزرگ کعب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کسی طرح بچ نکلے۔ جسے ظالموں نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ یہ بعد تک زندہ رہے۔ یہاں تک کہ جنگ خندق میں شہید ہوئے۔ رضی اللہ عنہم آمین