‌صحيح البخاري - حدیث 130

كِتَابُ العِلْمِ بَابُ الحَيَاءِ فِي العِلْمِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي مِنَ الحَقِّ، فَهَلْ عَلَى المَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا احْتَلَمَتْ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَتِ المَاءَ» فَغَطَّتْ أُمُّ سَلَمَةَ، تَعْنِي وَجْهَهَا، وَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَتَحْتَلِمُ المَرْأَةُ؟ قَالَ: «نَعَمْ، تَرِبَتْ يَمِينُكِ، فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 130

کتاب: علم کے بیان میں باب: طالب علم کے لئے شرمانا مناسب نہیں ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے ہشام نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے زینب بنت ام سلمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ( اپنی والدہ ) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ ام سلیم ( نامی ایک عورت ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا ( اس لیے میں پوچھتی ہوں کہ ) کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( ہاں ) جب عورت پانی دیکھ لے۔ ( یعنی کپڑے وغیرہ پر منی کا اثر معلوم ہو ) تو ( یہ سن کر ) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ( شرم کی وجہ سے ) اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا، یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا، ہاں! تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، پھر کیوں اس کا بچہ اس کی صورت کے مشابہ ہوتا ہے ( یعنی یہی اس کے احتلام کا ثبوت ہے۔
تشریح : انصار کی عورتیں ان مخصوص مسائل کے دریافت کرنے میں کسی قسم کی شرم سے کام نہیں لیتی تھیں، جن کا تعلق صرف عورتوں سے ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مسائل کو وضاحت کے ساتھ دریافت نہ کرتیں توآج مسلمان عورتوں کو اپنی زندگی کے اس گوشے کے لیے رہنمائی کہاں سے ملتی، اسی طرح مذکورہ حدیث میں حضرت ام سلیم نے نہایت خوب صورتی کے ساتھ پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت خاص بیان فرمائی کہ وہ حق بات کے بیان میں نہیں شرماتا، پھر وہ مسئلہ دریافت کیا جو بظاہر شرم سے تعلق رکھتا ہے، مگرمسئلہ ہونے کی حیثیت میں اپنی جگہ دریافت طلب تھا،پس پوری امت پر سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا احسان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی زندگی سے متعلق بھی وہ باتیں کھول کر بیان فرمادیں جنھیں عام طور پر لوگ بے جاشرم کے سہارے بیان نہیں کرتے اور دوسری طرف صحابیہ عورتوں کی بھی یہ امت بے حد ممنون ہے کہ انھوں نے آپ سے سب مسائل دریافت کرڈالے، جن کی ہرعورت کو ضرورت پیش آتی ہے۔ حضرت زینب بنت عبداللہ بن الاسد مخزومی اپنے زمانہ کی بڑی فاضلہ خاتون تھیں، ان کی والدہ ماجدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند عبداللہ کی وفات بعد غزوئہ احد کے عدت گزارنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے مشرف ہوئیں توان کی تربیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس ہوئی۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اسلام میں پہلی خاتون ہیں جنھوں نے مدینہ طیبہ کو ہجرت کی، ان کے خاوند ابوسلمہ بدرمیں شریک تھے، احد میں یہ مجروح ہوئے اور بعد میں وفات پائی، جن کے جنازے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوتکبیروں سے نمازجنازہ ادا فرمائی تھی، اس وقت ام سلمہ حاملہ تھیں۔ وضع حمل کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں ان کو شرف حاصل ہوا۔ حضرت ام سلیم حضرت انس کی والدہ محترمہ ہیں اور حضرت ابوطلحہ انصاری کی زوجہ مطہرہ ہیں، اسلام میں ان کا بھی بڑا اونچا مقام ہے رضی اللہ عنہم اجمعین۔ انصار کی عورتیں ان مخصوص مسائل کے دریافت کرنے میں کسی قسم کی شرم سے کام نہیں لیتی تھیں، جن کا تعلق صرف عورتوں سے ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مسائل کو وضاحت کے ساتھ دریافت نہ کرتیں توآج مسلمان عورتوں کو اپنی زندگی کے اس گوشے کے لیے رہنمائی کہاں سے ملتی، اسی طرح مذکورہ حدیث میں حضرت ام سلیم نے نہایت خوب صورتی کے ساتھ پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت خاص بیان فرمائی کہ وہ حق بات کے بیان میں نہیں شرماتا، پھر وہ مسئلہ دریافت کیا جو بظاہر شرم سے تعلق رکھتا ہے، مگرمسئلہ ہونے کی حیثیت میں اپنی جگہ دریافت طلب تھا،پس پوری امت پر سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا احسان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی زندگی سے متعلق بھی وہ باتیں کھول کر بیان فرمادیں جنھیں عام طور پر لوگ بے جاشرم کے سہارے بیان نہیں کرتے اور دوسری طرف صحابیہ عورتوں کی بھی یہ امت بے حد ممنون ہے کہ انھوں نے آپ سے سب مسائل دریافت کرڈالے، جن کی ہرعورت کو ضرورت پیش آتی ہے۔ حضرت زینب بنت عبداللہ بن الاسد مخزومی اپنے زمانہ کی بڑی فاضلہ خاتون تھیں، ان کی والدہ ماجدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند عبداللہ کی وفات بعد غزوئہ احد کے عدت گزارنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے مشرف ہوئیں توان کی تربیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس ہوئی۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اسلام میں پہلی خاتون ہیں جنھوں نے مدینہ طیبہ کو ہجرت کی، ان کے خاوند ابوسلمہ بدرمیں شریک تھے، احد میں یہ مجروح ہوئے اور بعد میں وفات پائی، جن کے جنازے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوتکبیروں سے نمازجنازہ ادا فرمائی تھی، اس وقت ام سلمہ حاملہ تھیں۔ وضع حمل کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں ان کو شرف حاصل ہوا۔ حضرت ام سلیم حضرت انس کی والدہ محترمہ ہیں اور حضرت ابوطلحہ انصاری کی زوجہ مطہرہ ہیں، اسلام میں ان کا بھی بڑا اونچا مقام ہے رضی اللہ عنہم اجمعین۔