‌صحيح البخاري - حدیث 1289

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا: سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يَبْكِي عَلَيْهَا أَهْلُهَا، فَقَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1289

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکرنے‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکرنے‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک یہودی عورت پر ہوا جس کے مرنے پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ رو رہے ہیں حالانکہ اس کو قبر میں عذاب کیا جارہا ہے۔
تشریح : اس کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی اس کے گھر والوں کے رونے سے یا اس کے کفر کی وجہ سے دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ تو اس رنج میں ہیں کہ ہم سے جدائی ہوگئی اور اس کی جان عذاب میں گرفتار ہے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اگلی حدیث کی تفسیر کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ میت ہے جو کافر ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو عام سمجھا اور اسی لیے صہیب رضی اللہ عنہ پر انکار کیا۔ ( وحیدی ) اس کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی اس کے گھر والوں کے رونے سے یا اس کے کفر کی وجہ سے دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ تو اس رنج میں ہیں کہ ہم سے جدائی ہوگئی اور اس کی جان عذاب میں گرفتار ہے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اگلی حدیث کی تفسیر کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ میت ہے جو کافر ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو عام سمجھا اور اسی لیے صہیب رضی اللہ عنہ پر انکار کیا۔ ( وحیدی )