كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ صحيح قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ، وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَيُعَذِّبُ المُؤْمِنَ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ لَيَزِيدُ الكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، وَقَالَتْ: حَسْبُكُمُ القُرْآنُ: {وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الأنعام: 164] قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «عِنْدَ ذَلِكَ وَاللَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى» قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: «وَاللَّهِ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا»
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو میں نے اس حدیث کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ رحمت عمر پر ہو۔ بخدارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اللہ مومن پر اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب کرے گا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کافر کا عذاب اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے اور زیادہ کردیتا ہے۔ اس کے بعد کہنے لگیں کہ قرآن کی یہ آیت تم کو بس کرتی ہے کہ “ کوئی کسی کے گناہ کا ذمہ دار اور اس کا بوجھ اٹھانے والا نہیں۔ ” اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس وقت ( یعنی ام ابان کے جنازے میں ) سورئہ نجم کی یہ آیت پڑھی “ اور اللہ ہی ہنساتا ہے اور وہی رُلاتا ہے۔ ” ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ خدا کی قسم! ابن عباس کی یہ تقریر سن کر ابن عمررضی اللہ عنہما نے کچھ جواب نہیں دیا۔
تشریح :
یہ آیت سورۃ فاطر میں ہے۔ مطلب امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا یہ ہے کہ کسی شخص پر غیر کے فعل سے سزانہ ہوگی مگر ہاں جب اس کو بھی اس فعل میں ایک طرح کی شرکت ہو۔ جیسے کسی کے خاندان کی رسم رونا پیٹنا نوحہ کرنا ہو اور وہ اس سے منع نہ کر جائے تو بے شک اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے سے اس پر عذاب ہوگا۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس پر محمول ہے کہ جب میت نوحہ کرنے کی وصیت کرجائے۔ بعضوں نے کہا کہ عذاب سے یہ مطلب ہے کہ میت کو تکلیف ہوتی ہے اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے سے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی کی تائید کی ہے حدیث لاتقتل نفس کو خود امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے دیات وغیرہ میں وصل کیا ہے۔ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ ناحق خون کوئی اور بھی کرتا ہے تو قابیل پر اس کے گناہ کا ایک حصہ ڈالا جاتا ہے اور اس کی وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی کہ اس نے ناحق خون کی بنا سب سے پہلے قائم کی تو اسی طرح جس کے خاندان میں نوحہ کرنے اور رونے پیٹنے کی رسم ہے اور اس نے منع نہ کیا تو کیا عجب ہے کہ نوحہ کرنے والوں کے گناہ کا ایک حصہ اس پر بھی ڈالا جائے اور اس کو عذاب ہو۔ ( وحیدی )
یہ آیت سورۃ فاطر میں ہے۔ مطلب امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا یہ ہے کہ کسی شخص پر غیر کے فعل سے سزانہ ہوگی مگر ہاں جب اس کو بھی اس فعل میں ایک طرح کی شرکت ہو۔ جیسے کسی کے خاندان کی رسم رونا پیٹنا نوحہ کرنا ہو اور وہ اس سے منع نہ کر جائے تو بے شک اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے سے اس پر عذاب ہوگا۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس پر محمول ہے کہ جب میت نوحہ کرنے کی وصیت کرجائے۔ بعضوں نے کہا کہ عذاب سے یہ مطلب ہے کہ میت کو تکلیف ہوتی ہے اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے سے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی کی تائید کی ہے حدیث لاتقتل نفس کو خود امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے دیات وغیرہ میں وصل کیا ہے۔ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ ناحق خون کوئی اور بھی کرتا ہے تو قابیل پر اس کے گناہ کا ایک حصہ ڈالا جاتا ہے اور اس کی وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی کہ اس نے ناحق خون کی بنا سب سے پہلے قائم کی تو اسی طرح جس کے خاندان میں نوحہ کرنے اور رونے پیٹنے کی رسم ہے اور اس نے منع نہ کیا تو کیا عجب ہے کہ نوحہ کرنے والوں کے گناہ کا ایک حصہ اس پر بھی ڈالا جائے اور اس کو عذاب ہو۔ ( وحیدی )