كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ هَلْ تُكَفَّنُ المَرْأَةُ فِي إِزَارِ الرَّجُلِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمَّادٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ تُوُفِّيَتْ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَنَا اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَنَزَعَ مِنْ حِقْوِهِ إِزَارَهُ وَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
باب: عورت کو مرد کے ازار کا کفن
ہم سے عبد الرحمن بن حماد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابن عون نے خبر دی، انھیں محمد نے، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا کہ تم اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ مرتبہ بھی غسل دے سکتی ہو۔ پھر فارغ ہوکر مجھے خبر دی نا۔ چنانچہ جب ہم غسل دے چکیں تو آپ کو خبر دی اور آپ نے اپنا ازار عنایت فرمایا اور فرمایا کہ اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو۔
تشریح :
ابن بطال نے کہا کہ اس کے جواز پر اتفاق ہے اور جس نے یہ کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اور تھی دوسروں کو ایسا نہ کرنا چاہیے اس کا قول بے دلیل ہے
ابن بطال نے کہا کہ اس کے جواز پر اتفاق ہے اور جس نے یہ کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اور تھی دوسروں کو ایسا نہ کرنا چاہیے اس کا قول بے دلیل ہے