‌صحيح البخاري - حدیث 1251

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ فَاحْتَسَبَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيٌّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَمُوتُ لِمُسْلِمٍ ثَلَاثَةٌ مِنْ الْوَلَدِ فَيَلِجَ النَّارَ إِلَّا تَحِلَّةَ الْقَسَمِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1251

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: جس کی کوئی اولاد مرجائے ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا اور انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے اگر تین بچے مرجائیں تو وہ دوزخ میں نہیں جائےگا اور اگر جائے گا بھی تو صرف قسم پوری کرنے کے لیے۔ ابو عبد اللہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ( قرآن کی آیت یہ ہے ) تم میں سے ہر ایک کو دوزخ کے اوپر سے گزرنا ہوگا۔
تشریح : نابالغ بچوں کی وفات پر اگر ماں باپ صبر کریں تو اس پر ثواب ملتا ہے۔ قدرتی طور پر اولاد کی موت ماں باپ کے لیے بہت بڑا غم ہے اور اسی لیے اگر کوئی اس پر یہ سمجھ کر صبر کرے کہ اللہ تعالی ہی نے یہ بچہ دیا تھا اور اب اسی نے اٹھالیا تو اس حادثہ کی سنگینی کے مطابق اس پرثواب بھی اتنا ہی ملے گا۔ اس کے گنا ہ معاف ہو جائیں گے۔ اور آخرت میں اس کی جگہ جنت میں ہوگی۔ آخر میں یہ بتایا ہے کہ جہنم سے یوں تر ہر مسلمان کو گزرنا ہوگا لیکن جو مومن بندے اس کے مستحق نہیں ہوں گے، ان کا گزرنا بس ایسا ہی ہوگا جیسے قسم پوری کی جارہی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر قرآن مجید کی آیت بھی لکھی ہے۔ بعض علماءنے ا س کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ پل صراط چونکہ ہے ہی جہنم پر اور اس سے ہر انسان کو گزرنا ہوگا۔ اب جو نیک ہے وہ اس سے بآسانی گزر جائے گا لیکن بدعمل یا کافر اس سے گزر نہ سکیں گے اورجہنم میں چلے جائیں گے تو جہنم سے گزر نے سے یہی مرادہے۔ یہاں اس بات کا بھی لحاظ رہے کہ حدیث میں نابالغ اولاد کے مرنے پر اس اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بالغ کا ذکر نہیں ہے حالانکہ بالغ اور خصوصا جوان اولاد کی موت کا سانحہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے ماں باپ کی اللہ تعالی سے شفارس کرتے ہیں۔ بعض روایتوں میں ایک بچے کی موت پر بھی یہی وعدہ موجود ہے۔جہاں تک صبر کا تعلق ہے وہ بہر حال بالغ کی موت پر بھی ملے گا۔ الغرض دوزخ کے اوپر سے گزرنے کا مطلب پل صراط کے اوپر سے گزرناہے جو دوزخ کے پشت پر نصب ہے پس مومن کا دوزخ میں جانا یہی پل صراط کے اوپر سے گزرنا ہے۔آیت شریفہ ( وان منکم الا واردھا ) کا یہی مفہوم ہے۔ نابالغ بچوں کی وفات پر اگر ماں باپ صبر کریں تو اس پر ثواب ملتا ہے۔ قدرتی طور پر اولاد کی موت ماں باپ کے لیے بہت بڑا غم ہے اور اسی لیے اگر کوئی اس پر یہ سمجھ کر صبر کرے کہ اللہ تعالی ہی نے یہ بچہ دیا تھا اور اب اسی نے اٹھالیا تو اس حادثہ کی سنگینی کے مطابق اس پرثواب بھی اتنا ہی ملے گا۔ اس کے گنا ہ معاف ہو جائیں گے۔ اور آخرت میں اس کی جگہ جنت میں ہوگی۔ آخر میں یہ بتایا ہے کہ جہنم سے یوں تر ہر مسلمان کو گزرنا ہوگا لیکن جو مومن بندے اس کے مستحق نہیں ہوں گے، ان کا گزرنا بس ایسا ہی ہوگا جیسے قسم پوری کی جارہی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر قرآن مجید کی آیت بھی لکھی ہے۔ بعض علماءنے ا س کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ پل صراط چونکہ ہے ہی جہنم پر اور اس سے ہر انسان کو گزرنا ہوگا۔ اب جو نیک ہے وہ اس سے بآسانی گزر جائے گا لیکن بدعمل یا کافر اس سے گزر نہ سکیں گے اورجہنم میں چلے جائیں گے تو جہنم سے گزر نے سے یہی مرادہے۔ یہاں اس بات کا بھی لحاظ رہے کہ حدیث میں نابالغ اولاد کے مرنے پر اس اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بالغ کا ذکر نہیں ہے حالانکہ بالغ اور خصوصا جوان اولاد کی موت کا سانحہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے ماں باپ کی اللہ تعالی سے شفارس کرتے ہیں۔ بعض روایتوں میں ایک بچے کی موت پر بھی یہی وعدہ موجود ہے۔جہاں تک صبر کا تعلق ہے وہ بہر حال بالغ کی موت پر بھی ملے گا۔ الغرض دوزخ کے اوپر سے گزرنے کا مطلب پل صراط کے اوپر سے گزرناہے جو دوزخ کے پشت پر نصب ہے پس مومن کا دوزخ میں جانا یہی پل صراط کے اوپر سے گزرنا ہے۔آیت شریفہ ( وان منکم الا واردھا ) کا یہی مفہوم ہے۔