كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الرَّجُلِ يَنْعَى إِلَى أَهْلِ المَيِّتِ بِنَفْسِهِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ خَرَجَ إِلَى الْمُصَلَّى فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ أَرْبَعًا
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
باب: آدمی اپنی ذات سے موت کی خبر
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی خبر اسی دن دی جس دن اس کی وفات ہوئی تھی۔ پھر آپ نماز پڑھنے کی جگہ گئے۔ اور لوگوں کے ساتھ صف باندھ کر ( جنازہ کی نماز میں ) چار تکبیریں کہیں۔
تشریح :
بعضوں نے اس کو برا سمجھا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر ان کا رد کیا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نجاشی اور زید اور جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ کی موت کی خبریں ان کے لوگوں کو سنائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی پر نماز جنازہ پڑھی۔ حالانکہ وہ حبش کے ملک میں مراتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے تو میت غائب پر نماز پڑھنا جائز ہوا۔ اہلحدیث اور جمہور علماءکے نزدیک یہ جائز ہے اور حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے۔یہ حدیث ان پر حجت ہے۔ اب یہ تاویل کہ اس کا جنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایاگیا تھا فاسد ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ دوسرے اگر سامنے بھی لایا گیا ہو توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایاگیاہوگا نہ کہ صحابہ کے، انہوں نے تو غائب پر نماز پڑھی۔ ( وحیدی )
نجاشی کے متعلق حدیث کو مسلم واحمد ونسائی وترمذی نے بھی روایت کیا ہے اور سب نے ہی اس کی تصحیح کی ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وقد استدل بھذہ القصۃ القائلون بمشروعیۃ الصلوۃ علی الغائب عن البلد قال فی الفتح وبذلک قال الشافعی واحمدوجمہور السلف حتی قال ابن حزم لم یات عن احمد الصحابۃ منعہ قال الشافعی علی المیت دعاءفکیف لا یدعی لہ وھو غائب او فی القبر۔ ( نیل الاوطار ) یعنی جو حضرات نماز جنازہ غائبانہ کے قائل ہیں انہوں نے اسی واقعہ سے دلیل پکڑی ہے اور فتح الباری میں ہے کہ امام شافعی اور احمد اور جمہور سلف کا یہی مسلک ہے۔ بلکہ علامہ ابن حزم کا قول تو یہ ہے کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت نقل نہیں ہوئی۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جنازہ کی نماز میت کے لئے دعا ہے۔ پس وہ غائب ہو یا قبر میں اتاردیا گیا ہو، اس کے لیے دعا کیوں نہ کی جائے گی۔
نجاشی کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ بن معاویہ لیثی کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا جن کا انتقال مدینہ میں ہوا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں تھے اور معاویہ بن مقرن اور معاویہ بن معاویہ مزنی کے متعلق بھی ایسے واقعات نقل ہوئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جنازے غائبانہ ادا فرمائے۔ اگرچہ یہ روایات سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں۔پھر بھی واقعہ نجاشی سے ان کی تقویت ہوتی ہے۔
جو لوگ نماز جنازہ غائبانہ کے قائل نہیں ہیں وہ اس بارے میں مختلف اعتراض کرتے ہیں۔ علامہ شوکانی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں: والحاصل انہ لم یات المانعون من الصلوۃ علی الغائب بشئی یعتد بہ الخ یعنی مانعین کوئی ایسی دلیل نہ لا سکے ہیں جسے گنتی شمار میں لایا جائے۔ پس ثابت ہوا کہ نماز جنازہ غائبانہ بلا کراہت جائز ودرست ہے تفصیل مزید کے لیے نیل الاوطار ( جلد:3ص55, 56 ) کا مطالعہ کیا جائے۔
بعضوں نے اس کو برا سمجھا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر ان کا رد کیا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نجاشی اور زید اور جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ کی موت کی خبریں ان کے لوگوں کو سنائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی پر نماز جنازہ پڑھی۔ حالانکہ وہ حبش کے ملک میں مراتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے تو میت غائب پر نماز پڑھنا جائز ہوا۔ اہلحدیث اور جمہور علماءکے نزدیک یہ جائز ہے اور حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے۔یہ حدیث ان پر حجت ہے۔ اب یہ تاویل کہ اس کا جنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایاگیا تھا فاسد ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ دوسرے اگر سامنے بھی لایا گیا ہو توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایاگیاہوگا نہ کہ صحابہ کے، انہوں نے تو غائب پر نماز پڑھی۔ ( وحیدی )
نجاشی کے متعلق حدیث کو مسلم واحمد ونسائی وترمذی نے بھی روایت کیا ہے اور سب نے ہی اس کی تصحیح کی ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وقد استدل بھذہ القصۃ القائلون بمشروعیۃ الصلوۃ علی الغائب عن البلد قال فی الفتح وبذلک قال الشافعی واحمدوجمہور السلف حتی قال ابن حزم لم یات عن احمد الصحابۃ منعہ قال الشافعی علی المیت دعاءفکیف لا یدعی لہ وھو غائب او فی القبر۔ ( نیل الاوطار ) یعنی جو حضرات نماز جنازہ غائبانہ کے قائل ہیں انہوں نے اسی واقعہ سے دلیل پکڑی ہے اور فتح الباری میں ہے کہ امام شافعی اور احمد اور جمہور سلف کا یہی مسلک ہے۔ بلکہ علامہ ابن حزم کا قول تو یہ ہے کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت نقل نہیں ہوئی۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جنازہ کی نماز میت کے لئے دعا ہے۔ پس وہ غائب ہو یا قبر میں اتاردیا گیا ہو، اس کے لیے دعا کیوں نہ کی جائے گی۔
نجاشی کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ بن معاویہ لیثی کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا جن کا انتقال مدینہ میں ہوا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں تھے اور معاویہ بن مقرن اور معاویہ بن معاویہ مزنی کے متعلق بھی ایسے واقعات نقل ہوئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جنازے غائبانہ ادا فرمائے۔ اگرچہ یہ روایات سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں۔پھر بھی واقعہ نجاشی سے ان کی تقویت ہوتی ہے۔
جو لوگ نماز جنازہ غائبانہ کے قائل نہیں ہیں وہ اس بارے میں مختلف اعتراض کرتے ہیں۔ علامہ شوکانی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں: والحاصل انہ لم یات المانعون من الصلوۃ علی الغائب بشئی یعتد بہ الخ یعنی مانعین کوئی ایسی دلیل نہ لا سکے ہیں جسے گنتی شمار میں لایا جائے۔ پس ثابت ہوا کہ نماز جنازہ غائبانہ بلا کراہت جائز ودرست ہے تفصیل مزید کے لیے نیل الاوطار ( جلد:3ص55, 56 ) کا مطالعہ کیا جائے۔