‌صحيح البخاري - حدیث 1243

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ أُمَّ الْعَلَاءِ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ بَايَعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهُ اقْتُسِمَ الْمُهَاجِرُونَ قُرْعَةً فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ فَأَنْزَلْنَاهُ فِي أَبْيَاتِنَا فَوَجِعَ وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَلَمَّا تُوُفِّيَ وَغُسِّلَ وَكُفِّنَ فِي أَثْوَابِهِ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ أَبَا السَّائِبِ فَشَهَادَتِي عَلَيْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يُدْرِيكِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَكْرَمَهُ فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَنْ يُكْرِمُهُ اللَّهُ فَقَالَ أَمَّا هُوَ فَقَدْ جَاءَهُ الْيَقِينُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الْخَيْرَ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي قَالَتْ فَوَاللَّهِ لَا أُزَكِّي أَحَدًا بَعْدَهُ أَبَدًا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ مِثْلَهُ وَقَالَ نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ عُقَيْلٍ مَا يُفْعَلُ بِهِ وَتَابَعَهُ شُعَيْبٌ وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَمَعْمَرٌ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1243

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا ہم سے یحی بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے کہا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے فرمایا کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی کہ ام العلاءانصار کی ایک عورت نے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، نے انھیں خبر دی کہ مہاجرین قرعہ ڈال کر انصار میں بانٹ دیئے گئے تو حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہمارے حصہ میں آئے۔ چنانچہ ہم نے انھیں اپنے گھر میں رکھا۔ آخر وہ بیمار ہو ئے اور اسی میں وفات پا گئے۔ وفات کے بعد غسل دیا گیا اور کفن میں لپیٹ دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے کہا ابو سائب آپ پر اللہ کی رحمتیں ہوں میری آپ کے متعلق شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی عزت فرمائی ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ان کی عزت فرمائی ہے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ!میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں پھر کس کی اللہ تعالی عزت افزائی کرے گا؟ آپ نے فرمایا اس میں شبہ نہیں کہ ان کی موت آچکی، قسم اللہ کی کہ میں بھی ان کے لیے خیر ہی کی امید رکھتا ہوں لیکن واللہ!مجھے خود اپنے متعلق بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ام العلاءنے کہا کہ خدا کی قسم! اب میں کبھی کسی کے متعلق ( اس طرح کی ) گواہی نہیں دوں گی۔ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا اور ان سے لیث نے سابقہ روایت کی طرح بیان کیا، نافع بن یزید نے عقیل سے ( ما یفعل بی کے بجائے ) ما یفعل بہ کے الفاظ نقل کئے ہیں اور اس روایت کی متابعت شعیب، عمرو بن دینار اور معمر نے کی ہے۔اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیاجائے گا۔ حالانکہ اس کے حق میں میرا گمان نیک ہی ہے۔
تشریح : اس روایت میں کئی امور کا بیان ہے۔ ایک تو اس کا کہ جب مہاجرین مدینہ میں آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پریشانی رفع کرنے کے لیے انصار سے ان کا بھائی چارہ قائم کرادیا۔ اس بارے میں قرعہ اندازی کی گئی اور جو مہاجر جس انصاری کے حصہ میں آیا وہ اس کے حوالے کر دیا گیا۔ انہوں نے سگے بھائیوں سے زیادہ ان کی خاطر تواضع کی۔ ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل وکفن کے بعد عثمان بن مظعون کو دیکھا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ کسی بھی بندے کے متعلق حقیقت کاعلم اللہ ہی کو حاصل ہے۔ ہ میں اپنے ظن کے مطابق ان کے حق میں نیک گمان کرنا چاہیے۔ حقیقت حال کو اللہ کے حوالے کرنا چاہیے۔ کئی معاندین اسلام نے یہاں اعتراض کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ہی اپنی بھی نجات کا یقین نہ تھا تو آپ اپنی امت کی کیا سفارش کریں گے۔ اس اعتراض کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ابتدائے اسلام کا ہے، بعد میں اللہ نے آپ کو سورۃ فتح میں یہ بشارت دی کہ آپ کے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دیئے گئے تو یہ اعتراض خود رفع ہو گیا اور ثابت ہوا کہ اس کے بعد آپ کو اپنی نجات سے متعلق یقین کامل حاصل ہوگیاتھا۔ پھر بھی شان بندگی اس کو مستلزم ہے کہ پروردگار کی شان صمدیت ہمیشہ ملحوظ خاطر رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کرنا برحق ہے۔ بلکہ شفاعت کبریٰ کا مقام محمود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیاجائے گا۔ حالانکہ اس کے حق میں میرا گمان نیک ہی ہے۔ اس روایت میں کئی امور کا بیان ہے۔ ایک تو اس کا کہ جب مہاجرین مدینہ میں آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پریشانی رفع کرنے کے لیے انصار سے ان کا بھائی چارہ قائم کرادیا۔ اس بارے میں قرعہ اندازی کی گئی اور جو مہاجر جس انصاری کے حصہ میں آیا وہ اس کے حوالے کر دیا گیا۔ انہوں نے سگے بھائیوں سے زیادہ ان کی خاطر تواضع کی۔ ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل وکفن کے بعد عثمان بن مظعون کو دیکھا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ کسی بھی بندے کے متعلق حقیقت کاعلم اللہ ہی کو حاصل ہے۔ ہ میں اپنے ظن کے مطابق ان کے حق میں نیک گمان کرنا چاہیے۔ حقیقت حال کو اللہ کے حوالے کرنا چاہیے۔ کئی معاندین اسلام نے یہاں اعتراض کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ہی اپنی بھی نجات کا یقین نہ تھا تو آپ اپنی امت کی کیا سفارش کریں گے۔ اس اعتراض کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ابتدائے اسلام کا ہے، بعد میں اللہ نے آپ کو سورۃ فتح میں یہ بشارت دی کہ آپ کے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دیئے گئے تو یہ اعتراض خود رفع ہو گیا اور ثابت ہوا کہ اس کے بعد آپ کو اپنی نجات سے متعلق یقین کامل حاصل ہوگیاتھا۔ پھر بھی شان بندگی اس کو مستلزم ہے کہ پروردگار کی شان صمدیت ہمیشہ ملحوظ خاطر رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کرنا برحق ہے۔ بلکہ شفاعت کبریٰ کا مقام محمود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیاجائے گا۔ حالانکہ اس کے حق میں میرا گمان نیک ہی ہے۔