‌صحيح البخاري - حدیث 1241

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ صحيح حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ وَيُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ قَالَتْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى فَرَسِهِ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ يُكَلِّمْ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَتَيَمَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسَجًّى بِبُرْدِ حِبَرَةٍ فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ ثُمَّ بَكَى فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَمَّا الْمَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ فَقَدْ مُتَّهَا قَالَ أَبُو سَلَمَةَ فَأَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ اجْلِسْ فَأَبَى فَقَالَ اجْلِسْ فَأَبَى فَتَشَهَّدَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَالَ إِلَيْهِ النَّاسُ وَتَرَكُوا عُمَرَ فَقَالَ أَمَّا بَعْدُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى الشَّاكِرِينَ وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَهَا حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ فَمَا يُسْمَعُ بَشَرٌ إِلَّا يَتْلُوهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1241

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ مجھے معمر بن راشد اور یونس نے خبر دی، انہیںزہری نے، کہا کہ مجھے ابو سلمہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ ( جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ) ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اتر تے ہی مسجد میں تشریف لے گئے۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں آئے ( جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو برد حبرہ ( یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر ) سے ڈھانک دیاگیا تھا۔ پھر آپ نے حضور کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے۔ آپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی!اللہ تعالی دو موتیں آپ پر کبھی جمع نہیں کرےگا۔ سوا ایک موت کے جو آپ کے مقدر میں تھی سوآپ وفات پاچکے۔ ابو سلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب باہر تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت لوگوں سے کچھ باتیں کر رہے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ پھر دوبارہ آپ نے بیٹھنے کے لیے کہا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہوگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا امابعد!اگر کوئی شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تواسے معلوم ہونا چاہےے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالی باقی رہنے والاہے۔ کبھی وہ مرنے والا نہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے “ اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں ” الشاکرین تک ( آپ نے آیت تلاوت کی ) قسم اللہ کی ایسا معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اتاری ہے۔ اب تمام صحابہ نے یہ آیت آپ سے سیکھ لی پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی۔
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کو بوسہ دیا۔ یہیں سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ وفات نبوی پر صحابہ کرام میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ مگر بر وقت حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے امت کو سنبھالا اور حقیقت حال کا اظہار فرمایا جس سے مسلمانوں میں ایک گونہ سکون ہوگیا اور سب کو اس بات پر اطمینان کلی حاصل ہوگیا کہ اسلام اللہ کاسچا دین ہے وہ اللہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے اسلام کی بقا پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کی جماعت کے ایک فردفرید ہیں۔ اور دنیا میں جو بھی رسول آئے اپنے اپنے وقت پر سب دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ایسے ہی آپ بھی اپنا مشن پورا کر کے ملاءاعلی سے جاملے۔ صلی اللہ علی حبیبہ وبارک وسلم۔ بعض صحابہ کا یہ خیال بھی ہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہوں گے۔ اسی لیے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ پاک آپ پر دو موت طاری نہیں کرے گا۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم۔ آمین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کو بوسہ دیا۔ یہیں سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ وفات نبوی پر صحابہ کرام میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ مگر بر وقت حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے امت کو سنبھالا اور حقیقت حال کا اظہار فرمایا جس سے مسلمانوں میں ایک گونہ سکون ہوگیا اور سب کو اس بات پر اطمینان کلی حاصل ہوگیا کہ اسلام اللہ کاسچا دین ہے وہ اللہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے اسلام کی بقا پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کی جماعت کے ایک فردفرید ہیں۔ اور دنیا میں جو بھی رسول آئے اپنے اپنے وقت پر سب دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ایسے ہی آپ بھی اپنا مشن پورا کر کے ملاءاعلی سے جاملے۔ صلی اللہ علی حبیبہ وبارک وسلم۔ بعض صحابہ کا یہ خیال بھی ہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہوں گے۔ اسی لیے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ پاک آپ پر دو موت طاری نہیں کرے گا۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم۔ آمین