‌صحيح البخاري - حدیث 124

كِتَابُ العِلْمِ بَابُ السُّؤَالِ وَالفُتْيَا عِنْدَ رَمْيِ الجِمَارِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الجَمْرَةِ وَهُوَ يُسْأَلُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ قَالَ: «ارْمِ وَلاَ حَرَجَ»، قَالَ آخَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ؟ قَالَ: «انْحَرْ وَلاَ حَرَجَ». فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلاَ أُخِّرَ إِلَّا قَالَ: «افْعَلْ وَلاَ حَرَجَ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 124

کتاب: علم کے بیان میں باب: رمی جمار کے وقت بھی مسئلہ پوچھنا ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے زہری کے واسطے سے روایت کیا، انھوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے، انھوں نے عبداللہ بن عمرو سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمی جمار کے وقت دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جا رہا تھا تو ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے رمی سے قبل قربانی کر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اب ) رمی کر لو کچھ حرج نہیں ہوا۔ دوسرے نے کہا، یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اب ) قربانی کر لو کچھ حرج نہیں۔ ( اس وقت ) جس چیز کے بارے میں جو آگے پیچھے ہو گئی تھی، آپ سے پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہی جواب دیا ( اب ) کر لو کچھ حرج نہیں۔
تشریح : ( تعصب کی حد ہوگئی ) امام بخاری قدس سرہ کا مقصد ظاہر ہے کہ رمی جمار کے وقت بھی مسائل دریافت کرنا جائز ہے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی سوالات کئے گئے الدین یسر کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیم وتاخیر کونظرانداز کرتے ہوئے فرمادیاکہ جو کام چھوٹ گئے ہیں ان کو اب کرلو، توکوئی حرج نہیں ہے۔ بات بالکل سیدھی اور صاف ہے مگر تعصب کا براہو صاحب انوار الباری کو ہر جگہ یہی نظر آتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں بھی محض احناف کی تردید کے لیے ایسا لکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال ناقص میں گویا جامع صحیح ازاول تاآخر محض احناف کی تردید کے لیے لکھی گئی ہے، آپ کے الفاظ یہ ہیں: “ احقر ( صاحب انوارالباری ) کی رائے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ حسب عادت جس رائے کواختیار کرتے ہیں چونکہ بقول حضرت شاہ صاحب اسی کے مطابق احادیث لاتے ہیں اور دوسری جانب کونظر انداز کردیتے ہیں۔ اسی لیے ترتیب افعال حج کے سلسلہ میں چونکہ وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے سے مخالف ہیں اس لیے اپنے خیال کی تائید میں جگہ جگہ حدیث الباب افعل ولاحرج کو بھی لائے ہیں۔ ” ( انوارالباری،جلد4،ص: 104 ) معلوم ہوتا ہے کہ صاحب انوارالباری کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے دل کا پورا حال معلو ہے، اسی لیے تووہ ان کے ضمیر پر یہ فتویٰ لگارہے ہیں۔ اسلام کی تعلیم تھی کہ مسلمان آپس میں حسن ظن سے کام لیا کریں، یہاں یہ سوءظن ہے۔ استغفراللہ۔آگے صاحب انوارالباری مزید وضاحت فرماتے ہیں: “ آج اس ہی قسم کے تشدّد سے ہمارے غیرمقلد بھائی اور حرمین شریفین کے نجدی علماءائمہ حنفیہ کے خلاف محاذ بناتے ہیں، حنفیہ کو چڑانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی یک طرفہ احادیث پیش کیا کرتے ہیں۔ ” ( حوالہ مذکور ) صاحب انوارالباری کے اس الزام پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے قاعدہ ہے المرءیقیس علی نفسہ ( انسان دوسروں کو بھی اپنے نفس پر قیاس کیا کرتا ہے ) چونکہ اس تشدد اور چڑانے کا منظر کتاب انوارالباری کے بیشتر مقامات پر ظاہر وباہرہے اس لیے وہ دوسروں کو بھی اسی عینک سے دیکھتے ہیں، حالانکہ واقعات بالکل اس کے خلاف ہیں۔ مقام صدشکرہے کہ یہاں آپ نے اپنی سب سے معتوب جماعت اہل حدیث کو لفظ “ غیرمقلد بھائی ” سے تویادفرمایا۔ اللہ کرے کہ غیرمقلدوں کو یہ بھائی بنانا برادران یوسف کی نقل نہ ہو اور ہمارا تویقین ہے کہ ایسا ہرگز نہ ہوگا۔ اللہ پاک ہم سب کو ناموس اسلام کی حفاظت کے لیے اتفاق باہمی عطا فرمائے۔ سہواً ایسے موقع پر اتنی تقدیم وتاخیر معاف ہے۔ حدیث کا یہی منشا ہے، حنفیہ کو چڑانا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا منشاء نہیں ہے۔ ( تعصب کی حد ہوگئی ) امام بخاری قدس سرہ کا مقصد ظاہر ہے کہ رمی جمار کے وقت بھی مسائل دریافت کرنا جائز ہے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی سوالات کئے گئے الدین یسر کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیم وتاخیر کونظرانداز کرتے ہوئے فرمادیاکہ جو کام چھوٹ گئے ہیں ان کو اب کرلو، توکوئی حرج نہیں ہے۔ بات بالکل سیدھی اور صاف ہے مگر تعصب کا براہو صاحب انوار الباری کو ہر جگہ یہی نظر آتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں بھی محض احناف کی تردید کے لیے ایسا لکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال ناقص میں گویا جامع صحیح ازاول تاآخر محض احناف کی تردید کے لیے لکھی گئی ہے، آپ کے الفاظ یہ ہیں: “ احقر ( صاحب انوارالباری ) کی رائے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ حسب عادت جس رائے کواختیار کرتے ہیں چونکہ بقول حضرت شاہ صاحب اسی کے مطابق احادیث لاتے ہیں اور دوسری جانب کونظر انداز کردیتے ہیں۔ اسی لیے ترتیب افعال حج کے سلسلہ میں چونکہ وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے سے مخالف ہیں اس لیے اپنے خیال کی تائید میں جگہ جگہ حدیث الباب افعل ولاحرج کو بھی لائے ہیں۔ ” ( انوارالباری،جلد4،ص: 104 ) معلوم ہوتا ہے کہ صاحب انوارالباری کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے دل کا پورا حال معلو ہے، اسی لیے تووہ ان کے ضمیر پر یہ فتویٰ لگارہے ہیں۔ اسلام کی تعلیم تھی کہ مسلمان آپس میں حسن ظن سے کام لیا کریں، یہاں یہ سوءظن ہے۔ استغفراللہ۔آگے صاحب انوارالباری مزید وضاحت فرماتے ہیں: “ آج اس ہی قسم کے تشدّد سے ہمارے غیرمقلد بھائی اور حرمین شریفین کے نجدی علماءائمہ حنفیہ کے خلاف محاذ بناتے ہیں، حنفیہ کو چڑانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی یک طرفہ احادیث پیش کیا کرتے ہیں۔ ” ( حوالہ مذکور ) صاحب انوارالباری کے اس الزام پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے قاعدہ ہے المرءیقیس علی نفسہ ( انسان دوسروں کو بھی اپنے نفس پر قیاس کیا کرتا ہے ) چونکہ اس تشدد اور چڑانے کا منظر کتاب انوارالباری کے بیشتر مقامات پر ظاہر وباہرہے اس لیے وہ دوسروں کو بھی اسی عینک سے دیکھتے ہیں، حالانکہ واقعات بالکل اس کے خلاف ہیں۔ مقام صدشکرہے کہ یہاں آپ نے اپنی سب سے معتوب جماعت اہل حدیث کو لفظ “ غیرمقلد بھائی ” سے تویادفرمایا۔ اللہ کرے کہ غیرمقلدوں کو یہ بھائی بنانا برادران یوسف کی نقل نہ ہو اور ہمارا تویقین ہے کہ ایسا ہرگز نہ ہوگا۔ اللہ پاک ہم سب کو ناموس اسلام کی حفاظت کے لیے اتفاق باہمی عطا فرمائے۔ سہواً ایسے موقع پر اتنی تقدیم وتاخیر معاف ہے۔ حدیث کا یہی منشا ہے، حنفیہ کو چڑانا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا منشاء نہیں ہے۔