کِتَابُ مَا جَاءَ فِي السَّهْوِ باب ذَا كُلِّمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَأَشَارَ بِيَدِهِ وَاسْتَمَعَ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو عَنْ بُكَيْرٍ عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَرْسَلُوهُ إِلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالُوا اقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنَّا جَمِيعًا وَسَلْهَا عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُلْ لَهَا إِنَّا أُخْبِرْنَا عَنْكِ أَنَّكِ تُصَلِّينَهُمَا وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَكُنْتُ أَضْرِبُ النَّاسَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ عَنْهَا فَقَالَ كُرَيْبٌ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَبَلَّغْتُهَا مَا أَرْسَلُونِي فَقَالَتْ سَلْ أُمَّ سَلَمَةَ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِمْ فَأَخْبَرْتُهُمْ بِقَوْلِهَا فَرَدُّونِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ بِمِثْلِ مَا أَرْسَلُونِي بِهِ إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهَا ثُمَّ رَأَيْتُهُ يُصَلِّيهِمَا حِينَ صَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيَّ وَعِنْدِي نِسْوَةٌ مِنْ بَنِي حَرَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ الْجَارِيَةَ فَقُلْتُ قُومِي بِجَنْبِهِ فَقُولِي لَهُ تَقُولُ لَكَ أُمُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ سَمِعْتُكَ تَنْهَى عَنْ هَاتَيْنِ وَأَرَاكَ تُصَلِّيهِمَا فَإِنْ أَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخِرِي عَنْهُ فَفَعَلَتْ الْجَارِيَةُ فَأَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخَرَتْ عَنْهُ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ سَأَلْتِ عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَإِنَّهُ أَتَانِي نَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ فَشَغَلُونِي عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ فَهُمَا هَاتَانِ
کتاب: سجدہ سہو کا بیان
باب: اگر نمازی سے کوئی بات کرے
ہم سے یحیٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدا للہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، انہیں بکیر نے، انہیں کریب نے کہ ابن عباس، مسور بن مخرمہ اور عبد الرحمن بن ازہر رضی اللہ عنہم نے انھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا اور کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہم سب کا سلام کہنا اور اس کے بعد عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے بارے میں دریافت کرنا۔ انھیں یہ بھی بتا دینا کہ ہمیں خبرہوئی ہے کہ آپ یہ دو رکعتیں پڑھتی ہیں۔ حالانکہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکعتوں سے منع کیا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان رکعتوں کے پڑھنے پر لوگوں کو مارا بھی تھا۔ کریب نے بیان کیاکہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پیغام پہنچایا۔ اس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے اس کے متعلق دریافت کر۔ چنانچہ میں ان حضرات کی خدمت میں واپس ہوا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گفتگو نقل کر دی، انہوں نے مجھے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا انہیں پیغامات کے ساتھ جن کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں بھیجا تھا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ جواب دیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ عصر کے بعد نماز پڑھنے سے روکتے تھے لیکن ایک دن میں نے دیکھا کہ عصر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ دو رکعتیں پڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے۔ میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کی چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس لیے میں نے ایک باندی کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ میں نے اس سے کہہ دیا تھا کہ وہ آپ کے بازو میں ہوکر یہ پوچھے کہ ام سلمہ کہتی ہیں کہ یا رسول اللہ! آپ تو ان دورکعتوں سے منع کیا کرتے تھے حالانکہ میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ خود انھیں پڑھتے ہیں۔ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ سے اشارہ کریں تو تم پیچھے ہٹ جانا۔ باندی نے پھر اسی طرح کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو پیچھے ہٹ گئی۔ پھر جب آپ فارغ ہوئے تو ( آپ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے ) فرمایا کہ اے ابو امیہ کی بیٹی!تم نے عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے متعلق پوچھا، بات یہ ہے کہ میرے پاس عبد القیس کے کچھ لوگ آگئے تھے اور ان کے ساتھ بات کرنے میں میں ظہر کے بعد کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھا سو یہ وہی دو رکعت ہیں۔
تشریح :
نمازی سے کوئی بات کرے اور وہ سن کر اشارہ سے کچھ جواب دے دے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جوابی اشارہ اس حدیث سے ثابت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے فعل سے حسب موقع کسی خلاف شریعت کا م پر مناسب طورپر مارنا اور سختی سے منع کرنا بھی ثابت ہوا۔
نمازی سے کوئی بات کرے اور وہ سن کر اشارہ سے کچھ جواب دے دے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جوابی اشارہ اس حدیث سے ثابت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے فعل سے حسب موقع کسی خلاف شریعت کا م پر مناسب طورپر مارنا اور سختی سے منع کرنا بھی ثابت ہوا۔