کِتَابُ مَا جَاءَ فِي السَّهْوِ بَابُ إِذَا لَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعًا، سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ صحيح حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الدَّسْتَوَائِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نُودِيَ بِالصَّلَاةِ أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ وَلَهُ ضُرَاطٌ حَتَّى لَا يَسْمَعَ الْأَذَانَ فَإِذَا قُضِيَ الْأَذَانُ أَقْبَلَ فَإِذَا ثُوِّبَ بِهَا أَدْبَرَ فَإِذَا قُضِيَ التَّثْوِيبُ أَقْبَلَ حَتَّى يَخْطِرَ بَيْنَ الْمَرْءِ وَنَفْسِهِ يَقُولُ اذْكُرْ كَذَا وَكَذَا مَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ حَتَّى يَظَلَّ الرَّجُلُ إِنْ يَدْرِي كَمْ صَلَّى فَإِذَا لَمْ يَدْرِ أَحَدُكُمْ كَمْ صَلَّى ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ
کتاب: سجدہ سہو کا بیان
باب: اگر کسی نمازی کو یہ یاد نہ رہے کہ
ہم سے معاذبن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن ابی عبداللہ دستوائی نے بیان کیا، ان سے یحیٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابو سلمہ نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے اذان ہوتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتا ہوابھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سنے، جب اذان پوری ہو جاتی ہے تو پھر آجاتا ہے۔ پھرجب اقامت ہوتی ہے تو پھر بھاگ پڑتا ہے۔ لیکن اقامت ختم ہوتے ہی پھر آجاتا ہے اور نمازی کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں فلاں بات یاد کرو، اس طرح اسے وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو اس کے ذہن میں نہیں تھیں۔ لیکن دوسری طرف نماز ی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں اس نے پڑھی ہیں۔ اس لیے اگر کسی کو یہ یاد نہ رہے کہ تین رکعت پڑھیں یا چار تو بیٹھے ہی بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے۔
تشریح :
یعنی جس کو اس قدر بے انداز وسوسے پڑتے ہوں اس کے لیے صرف سہو کے دو سجدے کافی ہیں۔ حسن بصری اور سلف کا ایک گروہ اسی طرف گئے ہیں کہ اس حدیث سے کثیر الوساوس آدمی مراد ہے اورامام بخاری رحمہ اللہ کے باب سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ( للعلامہ الغزنوی ) اور امام مالک رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اس حدیث کو مسلم وغیرہ کی حدیث پر حمل کرتے ہیں جو ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر شک دو یا تین میں ہے تو دو سمجھے اور اگر تین یاچار میں ہے تو تین سمجھے۔ بقیہ کو پڑھ کرسہو کے دو سجدے سلام سے پہلے دے دے۔ ( نصر الباری، ج:1ص:447 )
یعنی جس کو اس قدر بے انداز وسوسے پڑتے ہوں اس کے لیے صرف سہو کے دو سجدے کافی ہیں۔ حسن بصری اور سلف کا ایک گروہ اسی طرف گئے ہیں کہ اس حدیث سے کثیر الوساوس آدمی مراد ہے اورامام بخاری رحمہ اللہ کے باب سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ( للعلامہ الغزنوی ) اور امام مالک رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اس حدیث کو مسلم وغیرہ کی حدیث پر حمل کرتے ہیں جو ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر شک دو یا تین میں ہے تو دو سمجھے اور اگر تین یاچار میں ہے تو تین سمجھے۔ بقیہ کو پڑھ کرسہو کے دو سجدے سلام سے پہلے دے دے۔ ( نصر الباری، ج:1ص:447 )