کِتَابُ العَمَلِ فِي الصَّلاَةِ بَابُ يُفْكِرُ الرَّجُلُ الشَّيْءَ فِي الصَّلاَةِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَقُولُ النَّاسُ: أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَلَقِيتُ رَجُلًا، فَقُلْتُ: بِمَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ البَارِحَةَ فِي العَتَمَةِ؟ فَقَالَ: لاَ أَدْرِي؟ فَقُلْتُ: لَمْ تَشْهَدْهَا؟ قَالَ: بَلَى، قُلْتُ: لَكِنْ أَنَا أَدْرِي «قَرَأَ سُورَةَ كَذَا وَكَذَا
کتاب: نماز کے کام کے بارے میں
باب: نماز میں کسی بات کا فکر کرے
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے کہاکہ مجھے ابن ابی ذئب نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے ( اور حال یہ ہے کہ ) میں ایک شخص سے ایک مرتبہ ملا اور اس سے میں نے ( بطور امتحان ) دریافت کیا کہ گزشتہ رات نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاءمیں کون کون سی سورتیں پڑھی تھیں؟ اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم۔ میں نے پوچھا کہ تم نماز میں شریک تھے؟ کہا کہ ہاں شریک تھا۔ میں نے کہا لیکن مجھے تو یاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں سورتیں پڑھی تھیں۔
تشریح :
اس روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ بتائی ہے کہ میں احادیث دوسرے بہت سے صحابہ کے مقابلے میں زیادہ کیوں بیان کرتا ہوں۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو اور دوسرے اعمال کو یاد رکھنے کی کوشش دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کرتا تھا۔ ایک روایت میں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں ہر وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ رہتا تھا، میرے اہل وعیال نہیں تھے،کھانے کمانے کی فکر نہیں تھی، “صفہ” میں رہنے والے غریب صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں دن گزرتا تھا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑتا تھا۔اس لیے میں نے احادیث آپ سے زیادہ سنیں اور چونکہ محفوظ بھی رکھیں اس لیے انہیں بیان کرتا ہوں۔ یہ حدیث کتاب العلم میں پہلے بھی آچکی ہے۔ وہیں اس کی بحث کا موقع بھی تھا۔ ان احادیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک خاص عنوان کے تحت ا س لیے جمع کیا ہے کہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے کسی چیز کا خیال آنے یا کچھ سوچنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ خیالات اورتفکرات ایسی چیزیں ہیں جن سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن حالات اور خیالات کی نوعیت کے فرق کا یہاں بھی لحاظ ضرور ہوگا۔ اگر امور آخرت کے متعلق خیالات نماز میں آئیں تو وہ دنیاوی امور کے بنسبت نماز کی خوبیوں پر کم اثر انداز ہونگے ( تفہیم البخاری ) باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ وہ صحابی نماز اور خطرات میں مستغرق رہتا تھا۔پھر بھی وہ اعادہ صلوۃ کے ساتھ مامور نہیں ہوا۔
اس روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ بتائی ہے کہ میں احادیث دوسرے بہت سے صحابہ کے مقابلے میں زیادہ کیوں بیان کرتا ہوں۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو اور دوسرے اعمال کو یاد رکھنے کی کوشش دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کرتا تھا۔ ایک روایت میں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں ہر وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ رہتا تھا، میرے اہل وعیال نہیں تھے،کھانے کمانے کی فکر نہیں تھی، “صفہ” میں رہنے والے غریب صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں دن گزرتا تھا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑتا تھا۔اس لیے میں نے احادیث آپ سے زیادہ سنیں اور چونکہ محفوظ بھی رکھیں اس لیے انہیں بیان کرتا ہوں۔ یہ حدیث کتاب العلم میں پہلے بھی آچکی ہے۔ وہیں اس کی بحث کا موقع بھی تھا۔ ان احادیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک خاص عنوان کے تحت ا س لیے جمع کیا ہے کہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے کسی چیز کا خیال آنے یا کچھ سوچنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ خیالات اورتفکرات ایسی چیزیں ہیں جن سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن حالات اور خیالات کی نوعیت کے فرق کا یہاں بھی لحاظ ضرور ہوگا۔ اگر امور آخرت کے متعلق خیالات نماز میں آئیں تو وہ دنیاوی امور کے بنسبت نماز کی خوبیوں پر کم اثر انداز ہونگے ( تفہیم البخاری ) باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ وہ صحابی نماز اور خطرات میں مستغرق رہتا تھا۔پھر بھی وہ اعادہ صلوۃ کے ساتھ مامور نہیں ہوا۔