‌صحيح البخاري - حدیث 1216

کِتَابُ العَمَلِ فِي الصَّلاَةِ بَابُ لاَ يَرُدُّ السَّلاَمَ فِي الصَّلاَةِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنْتُ أُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَيَرُدُّ عَلَيَّ فَلَمَّا رَجَعْنَا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ وَقَالَ إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1216

کتاب: نماز کے کام کے بارے میں باب: نماز میں سلام کا جواب ( زبان سے ) نہ دے ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ( ابتداءاسلام میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں ہوتے تو میں آپ کو سلام کر تا تو آپ جواب دیتے تھے۔ مگر جب ہم ( حبشہ سے جہاں ہجرت کی تھی ) واپس آئے تو میں نے ( پہلے کی طرح نماز میں ) سلام کیا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا ( کیونکہ اب نماز میں بات چیت وغیرہ کی ممانعت نازل ہوگئی تھی ) اور فرمایا کہ نماز میں اس سے مشغولیت ہوتی ہے۔
تشریح : علماءکا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ واپسی مکہ شریف کوتھی یا مدینہ منورہ کو۔ حافظ نے فتح الباری میں اسے ترجیح دی ہے کہ مدینہ منورہ کو تھی جس طرح پہلے گزر چکا ہے اور جب یہ واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی لڑائی کے لیے تیاری فرمارہے تھے۔ اگلی حدیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے کہ نماز کے اندر کلام کرنا مدینہ میں حرام ہوا۔ کیونکہ حضرت جابر انصاری مدینہ کے باشندے تھے۔ علماءکا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ واپسی مکہ شریف کوتھی یا مدینہ منورہ کو۔ حافظ نے فتح الباری میں اسے ترجیح دی ہے کہ مدینہ منورہ کو تھی جس طرح پہلے گزر چکا ہے اور جب یہ واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی لڑائی کے لیے تیاری فرمارہے تھے۔ اگلی حدیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے کہ نماز کے اندر کلام کرنا مدینہ میں حرام ہوا۔ کیونکہ حضرت جابر انصاری مدینہ کے باشندے تھے۔