‌صحيح البخاري - حدیث 1215

کِتَابُ العَمَلِ فِي الصَّلاَةِ بَابُ إِذَا قِيلَ لِلْمُصَلِّي تَقَدَّمْ، أَوِ انْتَظِرْ، فَانْتَظَرَ، فَلاَ بَأْسَ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ عَاقِدُو أُزْرِهِمْ مِنْ الصِّغَرِ عَلَى رِقَابِهِمْ فَقِيلَ لِلنِّسَاءِ لَا تَرْفَعْنَ رُءُوسَكُنَّ حَتَّى يَسْتَوِيَ الرِّجَالُ جُلُوسًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1215

کتاب: نماز کے کام کے بارے میں باب: اگرنماز ی سے کوئی کہے کہ آگے بڑھ ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ابو حازم نے، ان کو سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز اس طرح پڑھتے کہ تہبند چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی گردنوں سے باندھے رکھتے اور عورتوں کو ( جو مردوں کے پیچھے جماعت میں شریک رہتی تھیں ) کہہ دیا جاتا کہ جب تک مرد پوری طرح سمٹ کرنہ بیٹھ جائیں تم اپنے سر ( سجدے سے ) نہ اٹھانا۔
تشریح : امام نماز میں بھول جائے یا کسی دیگرضروری امر پر اما م کو آگاہ کرنا ہوتو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورت تالیاں بجائیں اگر کسی مرد نے نادانی کی وجہ سے تالیاں بجائیں تو اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔ چنانچہ سہل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو دو بابوں کے بعد آرہی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے نادانی کی وجہ سے ایسا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں فرمایا۔ حدیث اور باب میں یوں مطابقت ہوئی کہ یہ بات عورتوں کو حالت نماز میں کہی گئی یا نماز سے پہلے۔ شق اول میں معلوم ہو اکہ نمازی کو مخاطب کرنا اور نمازی کے لیے کسی کا انتظار کرنا جائز ہے اور شق ثانی میں معلوم ہوا کہ نماز میں انتظار کرنا جائز ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ کسی کا انتظار اگر شرعی ہے تو جائزہے ورنہ نہیں ( فتح الباری ) امام نماز میں بھول جائے یا کسی دیگرضروری امر پر اما م کو آگاہ کرنا ہوتو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورت تالیاں بجائیں اگر کسی مرد نے نادانی کی وجہ سے تالیاں بجائیں تو اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔ چنانچہ سہل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو دو بابوں کے بعد آرہی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے نادانی کی وجہ سے ایسا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں فرمایا۔ حدیث اور باب میں یوں مطابقت ہوئی کہ یہ بات عورتوں کو حالت نماز میں کہی گئی یا نماز سے پہلے۔ شق اول میں معلوم ہو اکہ نمازی کو مخاطب کرنا اور نمازی کے لیے کسی کا انتظار کرنا جائز ہے اور شق ثانی میں معلوم ہوا کہ نماز میں انتظار کرنا جائز ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ کسی کا انتظار اگر شرعی ہے تو جائزہے ورنہ نہیں ( فتح الباری )