‌صحيح البخاري - حدیث 121

كِتَابُ العِلْمِ بَابُ الإِنْصَاتِ لِلْعُلَمَاءِ صحيح حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ جَرِيرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ: «اسْتَنْصِتِ النَّاسَ» فَقَالَ: «لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 121

کتاب: علم کے بیان میں باب: علماء کی بات خاموشی سے سننا ہم سے حجاج نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے علی بن مدرک نے ابوزرعہ سے خبر دی، وہ جریر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو ( تا کہ وہ خوب سن لیں ) پھر فرمایا، لوگو! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔
تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے نصیحتیں فرمانے سے پہلے جریر کوحکم دیاکہ لوگوں کو توجہ سے بات سننے کے لیے خاموش کریں، باب کا یہی منشا ہے کہ شاگرد کا فرض ہے استاد کی تقریر خاموشی اور توجہ کے ساتھ سنے۔ حضرت جریر ص10ھ میں حجۃ الوداع سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے، کافربن جانے سے مراد کافروں کے سے فعل کرنا مراد ہے۔ کیونکہ ناحق خون ریزی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ مگر صدافسوس کہ تھوڑے ہی دنوں بعد امت میں فتنے فساد شروع ہوگئے جوآج تک جاری ہیں، امت میں سے سب سے بڑا فتنہ ائمہ کی تقلید محض کے نام پر افتراق وانتشار پیدا کرنا ہے۔ مقلدین زبان سے چاروں اماموں کو برحق کہتے ہیں۔ مگر پھر بھی آپس میں اس طرح لڑتے جھگڑتے ہیں گویاان سب کا دین جداجدا ہے۔ تقلید جامد سے بچنے والوں کو غیرمقلد لامذہب کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور ان کی تحقیر وتوہین کرنا کارثواب جانتے ہیں۔ والی اللہ المشتکیٰ۔ اقبال مرحوم نے سچ فرمایا اگر تقلید بودے شیوئہ خوب پیغمبر ہم رہ اجداد نہ رفتے یعنی تقلید کا شیوہ اگراچھا ہوتا تو پیغمبر اپنے باپ دادا کی راہ پر چلتے مگر آپ نے اس روش کی مذمت فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے نصیحتیں فرمانے سے پہلے جریر کوحکم دیاکہ لوگوں کو توجہ سے بات سننے کے لیے خاموش کریں، باب کا یہی منشا ہے کہ شاگرد کا فرض ہے استاد کی تقریر خاموشی اور توجہ کے ساتھ سنے۔ حضرت جریر ص10ھ میں حجۃ الوداع سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے، کافربن جانے سے مراد کافروں کے سے فعل کرنا مراد ہے۔ کیونکہ ناحق خون ریزی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ مگر صدافسوس کہ تھوڑے ہی دنوں بعد امت میں فتنے فساد شروع ہوگئے جوآج تک جاری ہیں، امت میں سے سب سے بڑا فتنہ ائمہ کی تقلید محض کے نام پر افتراق وانتشار پیدا کرنا ہے۔ مقلدین زبان سے چاروں اماموں کو برحق کہتے ہیں۔ مگر پھر بھی آپس میں اس طرح لڑتے جھگڑتے ہیں گویاان سب کا دین جداجدا ہے۔ تقلید جامد سے بچنے والوں کو غیرمقلد لامذہب کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور ان کی تحقیر وتوہین کرنا کارثواب جانتے ہیں۔ والی اللہ المشتکیٰ۔ اقبال مرحوم نے سچ فرمایا اگر تقلید بودے شیوئہ خوب پیغمبر ہم رہ اجداد نہ رفتے یعنی تقلید کا شیوہ اگراچھا ہوتا تو پیغمبر اپنے باپ دادا کی راہ پر چلتے مگر آپ نے اس روش کی مذمت فرمائی۔