كِتَابُ التَّهَجُّدِ بَابُ صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً صحيح فَزَعَمَ مَحْمُودٌ أَنَّهُ سَمِعَ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الْأَنْصارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بِبَنِي سَالِمٍ وَكَانَ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَادٍ إِذَا جَاءَتْ الْأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُ إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي وَإِنَّ الْوَادِيَ الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إِذَا جَاءَتْ الْأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ فَوَدِدْتُ أَنَّكَ تَأْتِي فَتُصَلِّي مِنْ بَيْتِي مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلًّى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّهَارُ فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ وَصَفَفْنَا وَرَاءَهُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ فَحَبَسْتُهُ عَلَى خَزِيرٍ يُصْنَعُ لَهُ فَسَمِعَ أَهْلُ الدَّارِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَثَابَ رِجَالٌ مِنْهُمْ حَتَّى كَثُرَ الرِّجَالُ فِي الْبَيْتِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مَا فَعَلَ مَالِكٌ لَا أَرَاهُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ ذَاكَ مُنَافِقٌ لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُلْ ذَاكَ أَلَا تَرَاهُ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ أَمَّا نَحْنُ فَوَاللَّهِ لَا نَرَى وُدَّهُ وَلَا حَدِيثَهُ إِلَّا إِلَى الْمُنَافِقِينَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ قَالَ مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ فَحَدَّثْتُهَا قَوْمًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَتِهِ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا وَيَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَلَيْهِمْ بِأَرْضِ الرُّومِ فَأَنْكَرَهَا عَلَيَّ أَبُو أَيُّوبَ قَالَ وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا قُلْتَ قَطُّ فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيَّ فَجَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَيَّ إِنْ سَلَّمَنِي حَتَّى أَقْفُلَ مِنْ غَزْوَتِي أَنْ أَسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنْ وَجَدْتُهُ حَيًّا فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ فَقَفَلْتُ فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ أَوْ بِعُمْرَةٍ ثُمَّ سِرْتُ حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَأَتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ فَإِذَا عِتْبَانُ شَيْخٌ أَعْمَى يُصَلِّي لِقَوْمِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ مِنْ الصَّلَاةِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَأَخْبَرْتُهُ مَنْ أَنَا ثُمَّ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ
کتاب: تہجد کا بیان
باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا
محمود نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا جو بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، وہ کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بن ی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھامیرے ( گھر ) اور قوم کی مسجدکے بیچ میں ایک نالہ تھا، اور جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے میں نے کہا کہ میری آنکھیں خراب ہوگئی ہیں اور ایک نالہ ہے جو میرے اور میری قوم کے درمیان پڑتا ہے، وہ بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کا پار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاکر میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ دیںتاکہ میں اسے اپنے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کرلوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری یہ خواہش جلد ہی پوری کر وں گا۔ پھر دوسرے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر صبح تشریف لے آئے اور آپ نے اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی۔ آپ تشریف لا کر بیٹھے بھی نہیں بلکہ پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ میرے لیے نماز پڑھنا پسند کروگے۔ میں جس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے پسند کر چکا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیر ا۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیرا۔ میںنے حلیم کھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا جو تیار ہو رہاتھا۔ محلہ والوں نے جو سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما ہیں تو لوگ جلدی جلدی جمع ہونے شروع ہو گئے اور گھر میں ایک خاصا مجمع ہو گیا۔ ان میں سے ایک شخص بولا۔ مالک کو کیا ہو گیا ہے! یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر دوسرا بولاوہ تو منافق ہے۔ اسے خدا اور رسول سے محبت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔ ایسا مت کہو، دیکھتے نہیںکہ وہ لاالہ الا اللہ پڑھتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی ہے۔ تب وہ کہنے لگا کہ ( اصل حال ) تو اللہ اور رسول کو معلوم ہے۔ لیکن واللہ! ہم تو ان کی بات چیت اور میل جول ظاہر میں منافقوں ہی سے دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن اللہ تعالی نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے لا الہ الا اللہ خدا کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔ محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے انکار کیا اور فرمایا کہ خدا کی قسم! میںنہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بات کبھی بھی کہی ہو۔ آپ کی یہ گفتگو مجھ کو بہت ناگوار گزری اور میں نے اللہ تعالی کی منت مانی کہ اگر میں اس جہاد سے سلامتی کے ساتھ لوٹا تو واپسی پر اس حدیث کے بارے میں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے ضرور پوچھوں گا۔ اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا۔ آخر میں جہاد سے واپس ہوا۔ پہلے تومیں نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا پھر جب مدینہ واپسی ہوئی تو میں قبیلہ بن و سالم میں آیا۔ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ جو بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، اپنی قوم کونماز پڑھاتے ہوئے ملے۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نے حاضر ہوکر آپ کو سلام کیا اور بتلایا کہ میں فلاں ہوں۔ پھر میں نے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھ سے اس مرتبہ بھی اس طرح یہ حدیث بیان کی جس طرح پہلے بیان کی تھی۔
تشریح :
یہ50ھ یا اس کے بعد کا واقعہ ہے۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ پر فوج بھیجی تھی اور اس کا محاصرہ کر لیا تھا۔ اس لشکر کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے یزید تھے۔ جو بعد میں حادثہ کربلا کی وجہ سے تاریخ اسلام میں مطعون ہوئے۔ اس فوج میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری پر اولین میزبان ہیں۔ ان کی موت اسی موقع پر ہوئی اور قسطنطنیہ کے قلعہ کی دیوار کے نیچے دفن ہوئے۔ ترجمہ باب اس حدیث سے یوں نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور حاضرین خانہ نے آپ کے پیچھے صف باندھی اور یہ نفل نماز جماعت سے ادا کی گئی۔ کیونکہ دوسری حدیث میں موجود ہے کہ آدمی کی نفل نماز گھر ہی میں بہتر ہے اور فرض نماز کا مسجد میں با جماعت ادا کرنا ضروری ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو اس حدیث پر شبہ اس لیے ہوا کہ اس میں اعمال کے بغیر صرف کلمہ پڑھ لینے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ مگر یہ حدیث اس بارے میں مجمل ہے دیگر احادیث میں تفصیل موجود ہے کہ کلمہ طیبہ بے شک جنت کی کنجی ہے۔ مگر ہر کنجی کے لیے دندانے ضروری ہیں۔ اسی طرح کلمہ طیبہ کے دندانے فرائض اور واجبات کو ادا کرنا ہے۔محض کلمہ پڑھ لینا اور اس کے مطابق عمل نہ کرنا بے نتیجہ ہے۔
حضرت امیر المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ اگر چہ اس طویل حدیث کو یہاں اپنے مقصد باب کے تحت لائے ہیں کہ نفل نماز ایسی حالت میں باجماعت پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی اور بہت سے مسائل اور اس سے ثابت ہوتے ہیں مثلاًمعذور لوگ اگر جماعت میں آنے کی سکت نہ رکھتے ہوں تو وہ اپنے گھر ہی میں ایک جگہ مقرر کر کے وہاں نماز پڑھ سکتے ہیںاور یہ بھی ثابت ہوا کہ مہمانان خصوصی کو عمدہ سے عمدہ کھانا کھلانا مناسب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بغیر سوچے سمجھے کسی پر نفاق یا کفر کا فتویٰ لگا دینا جائز نہیں۔ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس شخص مالک نامی کا ذکر برے لفظوں میں کیا جو آپ کو ناگوار گزرا اورآپ نے فرمایا کہ وہ کلمہ پڑھنے والا ہے اسے تم لوگ منافق کیسے کہہ سکتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم تھا کہ وہ محض رسمی رواجی کلمہ گو نہیں ہے بلکہ کلمہ پڑھنے سے اللہ کی خوشنودی اس کے مد نظر ہے۔ پھر اسے کیسے منافق کہا جا سکتا ہے۔اس سے یہ بھی نکلا کہ جو لوگ اہلحدیث حضرات پر طعن کرتے ہیں اور ان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں وہ سخت خطاکار ہیں۔ جبکہ اہلحدیث حضرات نہ صرف کلمہ توحید پڑھتے ہیں بلکہ اسلام کے سچے عامل اورقرآن وحدیث کے صحیح تابعدار ہیں۔
اس پر حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ مجھے اس وقت وہ حکایت یاد آئی کہ شیخ محی الدین ابن عربی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں خفگی ہوئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ ان کے پیر شیخ ابو مدین مغربی کو ایک شخص بر ابھلا کہاکرتا تھا۔ شیخ ابن عربی اس سے دشمنی رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم خواب میں ان پر اپنی خفگی ظاہر کی۔ انہوں نے وجہ پوچھی۔ ارشاد ہوا تو فلاں شخص سے کیوں دشمنی رکھتا ہے۔ شیخ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ میرے پیر کوبرا کہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو نے اپنے پیر کو برا کہنے کی وجہ سے تواس سے دشمنی رکھی اور اللہ اور اس کے رسول سے جو وہ محبت رکھتا ہے اس کا خیال کر کے تونے اس سے محبت کیوں نہ رکھی۔ شیخ نے توبہ کی اور صبح کو معذرت کے لیے اس کے پاس گئے۔ مومنین کو لازم ہے کہ اہلحدیث سے محبت رکھیں کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتے ہیں اور گو مجتہدوں کی رائے اور قیاس کو نہیں مانتے مگر وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی وجہ سے پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وہ کسی کی رائے اور قیاس کو کیوں مانیں سچ ہے
ماعاشقیم بے دل دلدار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم
مابلبلیم نالاں گلزار مامحمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے انکار کی وجہ یہ بھی تھی کہ محض کلمہ پڑھ لینا اور عمل اس کے مطابق نہ ہونا نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔ اسی خیال کی بنا پر انہوں نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیونکر فرماسکتے ہیں۔ مگر واقعتا محمود بن الربیع سچے تھے اور انہوں نے اپنی مزید تقویت کے لیے دوبارہ عتبان بن مالک کے ہاں حاضری دی اور مکرر اس حدیث کی تصدیق کی۔ حدیث مذکور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجمل ایک ایسا لفظ بھی فرما دیا تھا جو اس چیز کا مظہر ہے کہ محض کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ابتغاءلوجہ اللہ ( اللہ کی رضا مندی کی طلب وتلاش ) بھی ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیز کلمہ پڑھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اجمالی ذکر فرمایا۔ آپ کا یہ مقصد نہ تھا کہ محض کلمہ پڑھنے سے وہ شخص جنتی ہو سکتا ہے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جامع تھا کہ کلمہ پڑھنا اور اس کے مطابق عمل درآمد کرنا اوریہ چیزیں آپ کو شخص متنازعہ کے بارے میں معلوم تھیں۔ اس لیے آپ نے اس کے ایمان کی توثیق فرمائی اور لوگوں کو اس کے بارے میں بد گمانی سے منع فرمایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
یہ50ھ یا اس کے بعد کا واقعہ ہے۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ پر فوج بھیجی تھی اور اس کا محاصرہ کر لیا تھا۔ اس لشکر کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے یزید تھے۔ جو بعد میں حادثہ کربلا کی وجہ سے تاریخ اسلام میں مطعون ہوئے۔ اس فوج میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری پر اولین میزبان ہیں۔ ان کی موت اسی موقع پر ہوئی اور قسطنطنیہ کے قلعہ کی دیوار کے نیچے دفن ہوئے۔ ترجمہ باب اس حدیث سے یوں نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور حاضرین خانہ نے آپ کے پیچھے صف باندھی اور یہ نفل نماز جماعت سے ادا کی گئی۔ کیونکہ دوسری حدیث میں موجود ہے کہ آدمی کی نفل نماز گھر ہی میں بہتر ہے اور فرض نماز کا مسجد میں با جماعت ادا کرنا ضروری ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو اس حدیث پر شبہ اس لیے ہوا کہ اس میں اعمال کے بغیر صرف کلمہ پڑھ لینے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ مگر یہ حدیث اس بارے میں مجمل ہے دیگر احادیث میں تفصیل موجود ہے کہ کلمہ طیبہ بے شک جنت کی کنجی ہے۔ مگر ہر کنجی کے لیے دندانے ضروری ہیں۔ اسی طرح کلمہ طیبہ کے دندانے فرائض اور واجبات کو ادا کرنا ہے۔محض کلمہ پڑھ لینا اور اس کے مطابق عمل نہ کرنا بے نتیجہ ہے۔
حضرت امیر المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ اگر چہ اس طویل حدیث کو یہاں اپنے مقصد باب کے تحت لائے ہیں کہ نفل نماز ایسی حالت میں باجماعت پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی اور بہت سے مسائل اور اس سے ثابت ہوتے ہیں مثلاًمعذور لوگ اگر جماعت میں آنے کی سکت نہ رکھتے ہوں تو وہ اپنے گھر ہی میں ایک جگہ مقرر کر کے وہاں نماز پڑھ سکتے ہیںاور یہ بھی ثابت ہوا کہ مہمانان خصوصی کو عمدہ سے عمدہ کھانا کھلانا مناسب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بغیر سوچے سمجھے کسی پر نفاق یا کفر کا فتویٰ لگا دینا جائز نہیں۔ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس شخص مالک نامی کا ذکر برے لفظوں میں کیا جو آپ کو ناگوار گزرا اورآپ نے فرمایا کہ وہ کلمہ پڑھنے والا ہے اسے تم لوگ منافق کیسے کہہ سکتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم تھا کہ وہ محض رسمی رواجی کلمہ گو نہیں ہے بلکہ کلمہ پڑھنے سے اللہ کی خوشنودی اس کے مد نظر ہے۔ پھر اسے کیسے منافق کہا جا سکتا ہے۔اس سے یہ بھی نکلا کہ جو لوگ اہلحدیث حضرات پر طعن کرتے ہیں اور ان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں وہ سخت خطاکار ہیں۔ جبکہ اہلحدیث حضرات نہ صرف کلمہ توحید پڑھتے ہیں بلکہ اسلام کے سچے عامل اورقرآن وحدیث کے صحیح تابعدار ہیں۔
اس پر حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ مجھے اس وقت وہ حکایت یاد آئی کہ شیخ محی الدین ابن عربی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں خفگی ہوئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ ان کے پیر شیخ ابو مدین مغربی کو ایک شخص بر ابھلا کہاکرتا تھا۔ شیخ ابن عربی اس سے دشمنی رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم خواب میں ان پر اپنی خفگی ظاہر کی۔ انہوں نے وجہ پوچھی۔ ارشاد ہوا تو فلاں شخص سے کیوں دشمنی رکھتا ہے۔ شیخ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ میرے پیر کوبرا کہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو نے اپنے پیر کو برا کہنے کی وجہ سے تواس سے دشمنی رکھی اور اللہ اور اس کے رسول سے جو وہ محبت رکھتا ہے اس کا خیال کر کے تونے اس سے محبت کیوں نہ رکھی۔ شیخ نے توبہ کی اور صبح کو معذرت کے لیے اس کے پاس گئے۔ مومنین کو لازم ہے کہ اہلحدیث سے محبت رکھیں کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتے ہیں اور گو مجتہدوں کی رائے اور قیاس کو نہیں مانتے مگر وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی وجہ سے پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وہ کسی کی رائے اور قیاس کو کیوں مانیں سچ ہے
ماعاشقیم بے دل دلدار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم
مابلبلیم نالاں گلزار مامحمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے انکار کی وجہ یہ بھی تھی کہ محض کلمہ پڑھ لینا اور عمل اس کے مطابق نہ ہونا نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔ اسی خیال کی بنا پر انہوں نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیونکر فرماسکتے ہیں۔ مگر واقعتا محمود بن الربیع سچے تھے اور انہوں نے اپنی مزید تقویت کے لیے دوبارہ عتبان بن مالک کے ہاں حاضری دی اور مکرر اس حدیث کی تصدیق کی۔ حدیث مذکور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجمل ایک ایسا لفظ بھی فرما دیا تھا جو اس چیز کا مظہر ہے کہ محض کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ابتغاءلوجہ اللہ ( اللہ کی رضا مندی کی طلب وتلاش ) بھی ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیز کلمہ پڑھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اجمالی ذکر فرمایا۔ آپ کا یہ مقصد نہ تھا کہ محض کلمہ پڑھنے سے وہ شخص جنتی ہو سکتا ہے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جامع تھا کہ کلمہ پڑھنا اور اس کے مطابق عمل درآمد کرنا اوریہ چیزیں آپ کو شخص متنازعہ کے بارے میں معلوم تھیں۔ اس لیے آپ نے اس کے ایمان کی توثیق فرمائی اور لوگوں کو اس کے بارے میں بد گمانی سے منع فرمایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔