‌صحيح البخاري - حدیث 1184

كِتَابُ التَّهَجُّدِ بَابُ الصَّلاَةِ قَبْلَ المَغْرِبِ صحيح حدثنا عبد الله بن يزيد، قال حدثنا سعيد بن أبي أيوب، قال حدثني يزيد بن أبي حبيب، قال سمعت مرثد بن عبد الله اليزني، قال أتيت عقبة بن عامر الجهني فقلت ألا أعجبك من أبي تميم يركع ركعتين قبل صلاة المغرب‏.‏ فقال عقبة إنا كنا نفعله على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ قلت فما يمنعك الآن قال الشغل‏.

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1184

کتاب: تہجد کا بیان باب: مغرب سے پہلے سنت پڑھنا ہم سے عبد اللہ بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مرثد بن عبداللہ یزنی سے سنا کہ میں عقبہ بن عامر جہنی صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا آپ کو ابو تمیم عبدا للہ بن مالک پر تعجب نہیں آیا کہ وہ مغرب کی نماز فرض سے پہلے دو رکعت نفل پڑھتے ہیں۔ اس پر عقبہ نے فرمایا کہ ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسے پڑھتے تھے۔ میں نے کہا پھر اب اس کے چھوڑنے کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ دنیا کے کاروبار مانع ہیں۔
تشریح : ہر دو احادیث سے ثابت ہوا کہ اب بھی موقع ملنے پر مغرب سے پہلے ان دو رکعتوں کو پڑھا جا سکتا ہے۔ اگر چہ پڑھنا ضروری نہیں مگر کوئی پڑھ لے تو یقینا موجب اجر وثواب ہوگا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ بعد میں ان کے پڑھنے سے روک دیا گیا۔ یہ بات بالکل غلط ہے پچھلے صفحات میں ان دورکعتوں کے استحباب پر روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ عبد اللہ بن مالک جثانی یہ تابعی مخضرم تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھا،پر آپ سے نہیں ملا، یہ مصر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں آیا، پھر وہیں رہ گیا۔ ایک جماعت نے ان کو صحابہ میں گنا۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مغرب کا وقت لمبا ہے اور جس نے اس کو تھوڑا قرار دیا اس کا قول بے دلیل ہے۔ مگر یہ رکعتیں جماعت کھڑی ہونے سے پہلے پڑھ لینا مستحب ہے۔ ( وحیدی ) ہر دو احادیث سے ثابت ہوا کہ اب بھی موقع ملنے پر مغرب سے پہلے ان دو رکعتوں کو پڑھا جا سکتا ہے۔ اگر چہ پڑھنا ضروری نہیں مگر کوئی پڑھ لے تو یقینا موجب اجر وثواب ہوگا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ بعد میں ان کے پڑھنے سے روک دیا گیا۔ یہ بات بالکل غلط ہے پچھلے صفحات میں ان دورکعتوں کے استحباب پر روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ عبد اللہ بن مالک جثانی یہ تابعی مخضرم تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھا،پر آپ سے نہیں ملا، یہ مصر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں آیا، پھر وہیں رہ گیا۔ ایک جماعت نے ان کو صحابہ میں گنا۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مغرب کا وقت لمبا ہے اور جس نے اس کو تھوڑا قرار دیا اس کا قول بے دلیل ہے۔ مگر یہ رکعتیں جماعت کھڑی ہونے سے پہلے پڑھ لینا مستحب ہے۔ ( وحیدی )