‌صحيح البخاري - حدیث 1176

كِتَابُ التَّهَجُّدِ بَابُ صَلاَةِ الضُّحَى فِي السَّفَرِ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى يَقُولُ مَا حَدَّثَنَا أَحَدٌ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى غَيْرُ أُمِّ هَانِئٍ فَإِنَّهَا قَالَتْ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ بَيْتَهَا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ فَاغْتَسَلَ وَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ فَلَمْ أَرَ صَلَاةً قَطُّ أَخَفَّ مِنْهَا غَيْرَ أَنَّهُ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1176

کتاب: تہجد کا بیان باب: سفر میں چاشت کی نماز پڑھنا ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبد الرحمن بن ابی لیلی سے سنا، وہ کہتے تھے کہ مجھ سے ام ہانی رضی اللہ عنہا کے سواکسی ( صحابی ) نے یہ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ صرف ام ہانی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور پھر آٹھ رکعت ( چاشت کی ) نماز پڑھی۔ تو میں نے ایسی ہلکی پھلکی نماز کبھی نہیں دیکھی۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا کرتے تھے۔
تشریح : حدیث ام ہانی رضی اللہ عنہا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جس نماز کا ذکر ہے۔ شارحین نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اسے شکرانہ کی نماز قرار دیا ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ ضحی کی نماز تھی، ابو داؤد میں وضاحت موجود ہے کہ صلی سبحۃالضحی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضحی کے نفل نمازادا فرمائے اور مسلم نے کتاب الطہارت میں نقل فرمایا ثم صلی ثمان رکعات سبحۃ الضحی یعنی پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضحی کی آٹھ رکعت نفل ادا فرمائی اور تمہید ابن عبد البر میں ہے کہ قالت قدم علیہ السلام مکۃ فصلی ثمان رکعات فقلت ما ھذہ الصلوۃ قال ھذہ صلوۃ الضحی حضرت ام ہانی کہتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف تشریف لائے اور آپ نے آٹھ رکعات ادا کیں۔ میں پوچھا کہ یہ کیسی نماز ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ضحی کی نمازہے۔ امام نووی نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ صلاۃ الضحی کا مسنون طریقہ آٹھ رکعات ادا کرنا ہے۔ یوں روایات میں کم وبیش بھی آئی ہیں۔ بعض روایات میں کم سے کم تعداد دو رکعت بھی مذکور ہے۔ بہر حال بہتر یہ ہے کہ صلوۃ الضحی پر مداومت کی جائے کیونکہ طبرانی اوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ جنت میں ایک دروازے کا نام ہی باب الضحی ہے جو لوگ نماز ضحی پر مداومت کرتے ہیں، ان کو اس دروازے سے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہ میں حکم دیا کہ ضحی کی نماز میں سورۃ والشمس وضُحٰھا اور والضحی پڑھا کریں۔ اس نماز کا وقت سورج کے بلند ہونے سے زوال تک ہے۔ ( قسطلانی ) حدیث ام ہانی رضی اللہ عنہا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جس نماز کا ذکر ہے۔ شارحین نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اسے شکرانہ کی نماز قرار دیا ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ ضحی کی نماز تھی، ابو داؤد میں وضاحت موجود ہے کہ صلی سبحۃالضحی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضحی کے نفل نمازادا فرمائے اور مسلم نے کتاب الطہارت میں نقل فرمایا ثم صلی ثمان رکعات سبحۃ الضحی یعنی پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضحی کی آٹھ رکعت نفل ادا فرمائی اور تمہید ابن عبد البر میں ہے کہ قالت قدم علیہ السلام مکۃ فصلی ثمان رکعات فقلت ما ھذہ الصلوۃ قال ھذہ صلوۃ الضحی حضرت ام ہانی کہتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف تشریف لائے اور آپ نے آٹھ رکعات ادا کیں۔ میں پوچھا کہ یہ کیسی نماز ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ضحی کی نمازہے۔ امام نووی نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ صلاۃ الضحی کا مسنون طریقہ آٹھ رکعات ادا کرنا ہے۔ یوں روایات میں کم وبیش بھی آئی ہیں۔ بعض روایات میں کم سے کم تعداد دو رکعت بھی مذکور ہے۔ بہر حال بہتر یہ ہے کہ صلوۃ الضحی پر مداومت کی جائے کیونکہ طبرانی اوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ جنت میں ایک دروازے کا نام ہی باب الضحی ہے جو لوگ نماز ضحی پر مداومت کرتے ہیں، ان کو اس دروازے سے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہ میں حکم دیا کہ ضحی کی نماز میں سورۃ والشمس وضُحٰھا اور والضحی پڑھا کریں۔ اس نماز کا وقت سورج کے بلند ہونے سے زوال تک ہے۔ ( قسطلانی )