‌صحيح البخاري - حدیث 1175

كِتَابُ التَّهَجُّدِ بَابُ صَلاَةِ الضُّحَى فِي السَّفَرِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ عَنْ تَوْبَةَ عَنْ مُوَرِّقٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتُصَلِّي الضُّحَى قَالَ لَا قُلْتُ فَعُمَرُ قَالَ لَا قُلْتُ فَأَبُو بَكْرٍ قَالَ لَا قُلْتُ فَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا إِخَالُهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1175

کتاب: تہجد کا بیان باب: سفر میں چاشت کی نماز پڑھنا ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحی بن سعیدی قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے توبہ بن کیسان نے، ان سے مورق بن مشمرج نے، انہوںنے بیان کیا کہ میں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا آپ چاشت کی نماز پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا اور عمر پڑھتے تھے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ؟ فرمایا نہیں۔ میں نے پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم؟ فرمایا نہیں۔ میرا خیال یہی ہے۔
تشریح : بعض شراح کرام کا کہنا ہے کہ بظاہر اس حدیث اور باب میں مطابقت نہیں ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں فحملہ الخطابی علی غلط الناسخ وابن المنیر علی انہ لما تعارضت عندہ احادیثھا نفیا کحدیث ابن عمر ھذا واثباتا کحدیث ابی ھریرۃ فی الوصیۃ بھا نزل حدیث النفی علی السفر وحدیث الاثبات علی الحضر ویوید ذلک انہ ترجم لحدیث ابی ھریرۃ بصلوۃ الضحی فی الحضر مع ما یعضدہ من قول ابن عمر لو کنت مسبحا لا تممت فی السفر قالہ ابن حجر یعنی خطابی نے اس باب کو ناقل کی غلطی پر محمول کیا ہے اور ابن منیر کا کہنا یہ ہے کہ حضرت اما م بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک نفی اور اثبات کی احادیث میں تعارض تھا، اس کو انہوں نے اس طرح رفع کیا کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جس میں نفی ہے سفر پر محمول کیا اور حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جس میں وصیت کا ذکر ہے اور جس سے اثبات ثابت ہو رہاہے، اس کو حضر پر محمول کیا۔ اس امر کی اس سے بھی تائید ہو رہی ہے کہ حدیث ابوہریرہ پر حضرت امام رحمہ اللہ نے صلوۃ الضحی فی الحضر کا باب منعقد فرمایا اور نفی کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول سے بھی تائید ہوتی ہے جو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں سفر میں نفل پڑھتا تو نمازوں کو ہی پورا کیوں نہ کرلیتا، پس معلوم ہوا کہ نفی سے ان کی سفر میں نفی مراد ہے اور حضرات شیخین کا فعل بھی سفر ہی سے متعلق ہے کہ وہ حضرات سفر میں نماز ضحی نہیں پڑھا کرتے تھے۔ بعض شراح کرام کا کہنا ہے کہ بظاہر اس حدیث اور باب میں مطابقت نہیں ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں فحملہ الخطابی علی غلط الناسخ وابن المنیر علی انہ لما تعارضت عندہ احادیثھا نفیا کحدیث ابن عمر ھذا واثباتا کحدیث ابی ھریرۃ فی الوصیۃ بھا نزل حدیث النفی علی السفر وحدیث الاثبات علی الحضر ویوید ذلک انہ ترجم لحدیث ابی ھریرۃ بصلوۃ الضحی فی الحضر مع ما یعضدہ من قول ابن عمر لو کنت مسبحا لا تممت فی السفر قالہ ابن حجر یعنی خطابی نے اس باب کو ناقل کی غلطی پر محمول کیا ہے اور ابن منیر کا کہنا یہ ہے کہ حضرت اما م بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک نفی اور اثبات کی احادیث میں تعارض تھا، اس کو انہوں نے اس طرح رفع کیا کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جس میں نفی ہے سفر پر محمول کیا اور حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جس میں وصیت کا ذکر ہے اور جس سے اثبات ثابت ہو رہاہے، اس کو حضر پر محمول کیا۔ اس امر کی اس سے بھی تائید ہو رہی ہے کہ حدیث ابوہریرہ پر حضرت امام رحمہ اللہ نے صلوۃ الضحی فی الحضر کا باب منعقد فرمایا اور نفی کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول سے بھی تائید ہوتی ہے جو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں سفر میں نفل پڑھتا تو نمازوں کو ہی پورا کیوں نہ کرلیتا، پس معلوم ہوا کہ نفی سے ان کی سفر میں نفی مراد ہے اور حضرات شیخین کا فعل بھی سفر ہی سے متعلق ہے کہ وہ حضرات سفر میں نماز ضحی نہیں پڑھا کرتے تھے۔