كِتَابُ التَّهَجُّدِ بَابُ مَاجَاءَ فِی التَّطَوُّعِ مَثنٰی مَثنٰی صحيح حدثنا قتيبة، قال حدثنا عبد الرحمن بن أبي الموالي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كما يعلمنا السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري ـ أو قال عاجل أمري وآجله ـ فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري ـ أو قال في عاجل أمري وآجله ـ فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم أرضني ـ قال ـ ويسمي حاجته .
کتاب: تہجد کا بیان
باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الرحمن بن ابی الموال نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے تمام معاملات میں استخارہ کرنے کی اسی طرح تعلیم دیتے تھے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھلاتے۔ آپ صل صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ جب کوئی اہم معاملہ تمہارے سامنے ہو تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے ( ترجمہ ) “ اے میرے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کی بدولت خیر طلب کر تا ہوں اور تیری قدرت کی بدولت تجھ سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل عظیم کا طلبگار ہوں کہ قدرت تو ہی رکھتا ہے اور مجھے کوئی قدرت نہیں۔ علم تجھ ہی کوہے اور میں کچھ نہیں جانتا اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے میرے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام جس کے لیے استخارہ کیا جارہا ہے میرے دین دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے میرے لیے بہتر ہے یا ( آپ نے یہ فرمایاکہ ) میرے لیے وقتی طور پر اور انجام کے اعتبار سے یہ ( خیر ہے ) تو اسے میرے لیے نصیب کر اور اس کا حصول میرے لیے آسان کر اور پھر اس میں مجھے برکت عطا کر اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین، دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے برا ہے۔ یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ ) میرے معاملہ میں وقتی طور پر اور انجام کے اعتبار سے ( برا ہے ) تو اسے مجھ سے ہٹا دے اور مجھے بھی اس سے ہٹا دے۔ پھر میرے لیے خیر مقدر فرما دے، جہاں بھی وہ ہو اور اس سے میرے دل کو مطمئن بھی کردے ”۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس کام کی جگہ اس کام کا نام لے۔
تشریح :
استخارہ سے کاموں میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ استخارہ کرنے کے بعد کوئی خواب بھی دیکھا جائے یا کسی دوسرے ذریعہ سے یہ معلوم ہو جائے کہ پیش آمدہ معاملہ میں کون سی روش مناسب ہوگی۔ اس طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ طبعی رجحان ہی کی حد تک کوئی بات استخارہ سے دل میں پیدا ہو جائے۔ حدیث میں استخارہ کے یہ فوائد کہیں بیان نہیں ہوئے ہیں اور واقعات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ استخارہ کے بعد بعض اوقات ان میں سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ استخارہ کا مقصد صرف طلب خیر ہے۔ جس کام کاارادہ ہے یا جس معاملہ میں آپ الجھے ہوئے ہیں گویا استخارہ کے ذریعہ آپ نے اسے خدا کے علم اور قدرت پر چھوڑ دیا اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر پوری طرح اس پر توکل کا وعدہ کر لیا۔“ میں تیرے علم کے واسطہ سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے واسطہ سے تجھ سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل کا خواستگار ہوں” یہ توکل اور تفویض نہیں تواور کیا چیز ہے؟اور پھر دعا کے آخری الفاظ “میرے لیے خیر مقدر فرمادیجئے جہاں بھی وہ ہوا اوراس پر میرے قلب کو مطمئن بھی کر دیجئے”یہ ہے رضا بالقضاءکی دعا کہ اللہ کے نزدیک معاملہ کی جو نوعیت صحیح ہے، کام اسی کے مطابق ہو اور پھر اس پر بندہ اپنے لیے ہر طرح اطمینان کی بھی دعا کرتا ہے کہ دل میں اللہ کے فیصلہ کے خلاف کسی قسم کا خطرہ بھی نہ پیدا ہو دراصل استخارہ کی اس دعا کے ذریعہ بندہ اول تو توکل کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ثابت قدمی اور رضا بالقضاءکی دعا کرتا ہے کہ خواہ معاملہ کا فیصلہ میری خواہش کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، ہو وہ خیر ہی اور میرا دل اس سے مطمئن اور راضی ہو جائے۔ اگر واقعی کوئی خلوص دل سے اللہ کے حضور میں یہ دونوں باتیں پیش کر دے تو اس کے کام میں اللہ تعالی کا فضل وکرم سے برکت یقینا ہوگی۔ استخارہ کا صرف یہی فائدہ ہے اور اس سے زیادہ اور کیا چاہیے؟ ( تفہیم البخاری ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں نفل نماز دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے اور یہی ترجمہ باب ہے۔
استخارہ سے کاموں میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ استخارہ کرنے کے بعد کوئی خواب بھی دیکھا جائے یا کسی دوسرے ذریعہ سے یہ معلوم ہو جائے کہ پیش آمدہ معاملہ میں کون سی روش مناسب ہوگی۔ اس طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ طبعی رجحان ہی کی حد تک کوئی بات استخارہ سے دل میں پیدا ہو جائے۔ حدیث میں استخارہ کے یہ فوائد کہیں بیان نہیں ہوئے ہیں اور واقعات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ استخارہ کے بعد بعض اوقات ان میں سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ استخارہ کا مقصد صرف طلب خیر ہے۔ جس کام کاارادہ ہے یا جس معاملہ میں آپ الجھے ہوئے ہیں گویا استخارہ کے ذریعہ آپ نے اسے خدا کے علم اور قدرت پر چھوڑ دیا اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر پوری طرح اس پر توکل کا وعدہ کر لیا۔“ میں تیرے علم کے واسطہ سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے واسطہ سے تجھ سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل کا خواستگار ہوں” یہ توکل اور تفویض نہیں تواور کیا چیز ہے؟اور پھر دعا کے آخری الفاظ “میرے لیے خیر مقدر فرمادیجئے جہاں بھی وہ ہوا اوراس پر میرے قلب کو مطمئن بھی کر دیجئے”یہ ہے رضا بالقضاءکی دعا کہ اللہ کے نزدیک معاملہ کی جو نوعیت صحیح ہے، کام اسی کے مطابق ہو اور پھر اس پر بندہ اپنے لیے ہر طرح اطمینان کی بھی دعا کرتا ہے کہ دل میں اللہ کے فیصلہ کے خلاف کسی قسم کا خطرہ بھی نہ پیدا ہو دراصل استخارہ کی اس دعا کے ذریعہ بندہ اول تو توکل کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ثابت قدمی اور رضا بالقضاءکی دعا کرتا ہے کہ خواہ معاملہ کا فیصلہ میری خواہش کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، ہو وہ خیر ہی اور میرا دل اس سے مطمئن اور راضی ہو جائے۔ اگر واقعی کوئی خلوص دل سے اللہ کے حضور میں یہ دونوں باتیں پیش کر دے تو اس کے کام میں اللہ تعالی کا فضل وکرم سے برکت یقینا ہوگی۔ استخارہ کا صرف یہی فائدہ ہے اور اس سے زیادہ اور کیا چاہیے؟ ( تفہیم البخاری ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں نفل نماز دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے اور یہی ترجمہ باب ہے۔