‌صحيح البخاري - حدیث 116

كِتَابُ العِلْمِ بَابُ السَّمَرِ فِي العِلْمِ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُسَافِرٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، وَأَبِي بَكْرِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العِشَاءَ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ، فَقَالَ: «أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا، لاَ يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 116

کتاب: علم کے بیان میں باب: سونے سے قبل علمی گفتگو کرنا سعید بن عفیر نے ہم سے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن خالد بن مسافر نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے سالم اور ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آخر عمر میں ( ایک دفعہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ عام طور پر اس امت کی عمریں سوبرس سے زیادہ نہ ہوںگی،یا یہ کہ آج کی رات میں جس قدر انسان زندہ ہیں سوسال کے آخر تک یہ سب ختم ہوجائیںگے۔ اس رات کے بعد جو نسلیں پیدا ہوں گی ان کی زندگی کی نفی مراد نہیں ہے۔ محققین کے نزدیک اس کا مطلب یہی ہے اور یہی ظاہر لفظوں سے سمجھ میں آتا ہے۔ چنانچہ سب سے آخری صحابی ابوطفیل عامربن واثلہ کا ٹھیک سوبرس بعد110برس کی عمرمیں انتقال ہوا مقصد یہ ہے کہ درس وتدریس وعظ وتذکیر بوقت ضرورت دن اور رات کے ہر حصہ میں جائز اور درست ہے۔ خصوصاً طلباءکے لیے رات کا پڑھنا دل ودماغ پر نقش ہو جاتا ہے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے دلیل پکڑی ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام کی زندگی کا خیال صحیح نہیں۔ اگروہ زندہ ہوتے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور ملاقات کرتے۔ بعض علماءان کی حیات کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ مطلب یہ ہے کہ عام طور پر اس امت کی عمریں سوبرس سے زیادہ نہ ہوںگی،یا یہ کہ آج کی رات میں جس قدر انسان زندہ ہیں سوسال کے آخر تک یہ سب ختم ہوجائیںگے۔ اس رات کے بعد جو نسلیں پیدا ہوں گی ان کی زندگی کی نفی مراد نہیں ہے۔ محققین کے نزدیک اس کا مطلب یہی ہے اور یہی ظاہر لفظوں سے سمجھ میں آتا ہے۔ چنانچہ سب سے آخری صحابی ابوطفیل عامربن واثلہ کا ٹھیک سوبرس بعد110برس کی عمرمیں انتقال ہوا مقصد یہ ہے کہ درس وتدریس وعظ وتذکیر بوقت ضرورت دن اور رات کے ہر حصہ میں جائز اور درست ہے۔ خصوصاً طلباءکے لیے رات کا پڑھنا دل ودماغ پر نقش ہو جاتا ہے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے دلیل پکڑی ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام کی زندگی کا خیال صحیح نہیں۔ اگروہ زندہ ہوتے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور ملاقات کرتے۔ بعض علماءان کی حیات کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔