كِتَابُ التَّهَجُّدِ بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى صحيح وَكَانُوا لَا يَزَالُونَ يَقُصُّونَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا أَنَّهَا فِي اللَّيْلَةِ السَّابِعَةِ مِنْ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَى رُؤْيَاكُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَمَنْ كَانَ مُتَحَرِّيهَا فَلْيَتَحَرَّهَا مِنْ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ
کتاب: تہجد کا بیان
باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے
بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خواب بیان کئے کہ شب قدر ( رمضان کی ) ستائیسویں رات ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب رمضان کے آخری عشرے میں ( شب قدر کے ہونے پر ) متفق ہو گئے ہیں۔ اس لیے جسے شب قدر کی تلاش ہو وہ رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈے۔
تشریح :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کتاب الصیام میں باب تحری لیلۃ القدر کے تحت میں فرماتے ہیں فی ھذہ الترجمۃ اشارۃ الی رجحان کون لیلۃ القدر منحصرۃ فی رمضان ثم فی العشر الاخیر منہ ثم فی اوتارہ لا فی لیلۃ منھا بعینھا وھذا ھو الذی یدل علیہ مجموع الاخبار الواردۃ فیھا۔ ( فتح ) یعنی لیلۃ القدر رمضان میں منحصر ہے اور وہ آخری عشرہ کی کسی ایک طاق رات میں ہوتی ہے جملہ احادیث جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ باقی تفصیل کتاب الصیام میں آئےگی۔ طاق راتوں سے 21, 23, 25, 27, 29 کی راتیں مراد ہیں۔ ان میں سے وہ کسی رات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ احادیث سے یہی ثابت ہوا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کتاب الصیام میں باب تحری لیلۃ القدر کے تحت میں فرماتے ہیں فی ھذہ الترجمۃ اشارۃ الی رجحان کون لیلۃ القدر منحصرۃ فی رمضان ثم فی العشر الاخیر منہ ثم فی اوتارہ لا فی لیلۃ منھا بعینھا وھذا ھو الذی یدل علیہ مجموع الاخبار الواردۃ فیھا۔ ( فتح ) یعنی لیلۃ القدر رمضان میں منحصر ہے اور وہ آخری عشرہ کی کسی ایک طاق رات میں ہوتی ہے جملہ احادیث جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ باقی تفصیل کتاب الصیام میں آئےگی۔ طاق راتوں سے 21, 23, 25, 27, 29 کی راتیں مراد ہیں۔ ان میں سے وہ کسی رات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ احادیث سے یہی ثابت ہوا ہے۔