كِتَابُ التَّهَجُّدِ بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي الْهَيْثَمُ بْنُ أَبِي سِنَانٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُصُّ فِي قَصَصِهِ وَهُوَ يَذْكُرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَخًا لَكُمْ لَا يَقُولُ الرَّفَثَ يَعْنِي بِذَلِكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ وَفِينَا رَسُولُ اللَّهِ يَتْلُو كِتَابَهُ إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنْ الْفَجْرِ سَاطِعُ أَرَانَا الْهُدَى بَعْدَ الْعَمَى فَقُلُوبُنَا بِهِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ يَبِيتُ يُجَافِي جَنْبَهُ عَنْ فِرَاشِهِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِينَ الْمَضَاجِعُ تَابَعَهُ عُقَيْلٌ وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ سَعِيدٍ وَالْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
کتاب: تہجد کا بیان
باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے
ہم سے یحیٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہیثم بن ابی سنان نے خبر دی کہ انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ اپنے وعظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کررہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے بھائی نے ( اپنے نعتیہ اشعار میں ) یہ کوئی غلط بات نہیں کہی۔ آپ کی مراد عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اشعار سے تھی جن کا ترجمہ یہ ہے : “ ہم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، جو اس کی کتاب اس وقت ہمیں سناتے ہیں جب فجر طلوع ہوتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گمراہی سے نکال کر صحیح راستہ دکھایا۔ ان کی باتیں اسی قدر یقینی ہیں جو ہمارے دلوں کے اندر جاکر بیٹھ جاتی ہیں اور جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ضرور واقع ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بستر سے اپنے کوالگ کر کے گزارتے ہیں جبکہ مشرکوں سے ان کے بستر بوجھل ہو رہے ہوتے ہیں ”۔ یونس کی طرح اس حدیث کو عقیل نے بھی زہری سے روایت کیا اور زبیدی نے یوں کہا سعید بن مسیب اور اعرج سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔
تشریح :
زبیدی کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ میں اور طبرانی نے معجم کبیر میں نکالا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض اس بیان سے یہ ہے کہ زہری کے شیخ میں راویوں کا اختلاف ہے۔ یونس اور عقیل نے ہیثم بن ابی سنان کہا ہے اور زبیدی نے سعید بن مسیب اور اعرج اور ممکن ہے کہ زہری نے ان تینوں سے اس حدیث کو سنا ہو، حافظ نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک پہلا طریق راجح ہے کیونکہ یونس اور عقیل دونوں نے بالاتفاق زہری کا شیخ ہیثم کو قرار دیا ہے ( وحیدی )
اس حدیث سے ثابت ہو اکہ مجالس وعظ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا نظم ونثر میں ذکر کرنا درست اور جائز ہے۔ سیرت کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اور حیات طیبہ کے واقعات کا ذکر کرنا باعث ازدیاد ایمان ہے لیکن محافل میلاد مروجہ کا انعقاد کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں۔ عہد صحابہ وتابعین وتبع تابعین وائمہ مجتہدین وجملہ محدثین کرام میں ایسی محافل کا نام ونشان بھی نہیں ملتا۔ پورے چھ سو سال گرز گئے دنیائے اسلام محفل میلاد کے نام سے بھی آشنا نہ تھی۔ تاریخ ابن خلکان میں ہے کہ اس محفل کا موجد اول ایک بادشاہ ابو سعید مظفرالدین نامی تھا، جو نزد موصل اربل نامی شہر کا حاکم تھا۔ علمائے راسخین نے اسی وقت سے اس نوایجاد محفل کی مخالفت فرمائی۔ مگر صد افسوس کہ نام نہاد فدائیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی بڑے طنطنہ سے ایسی محافل کرتے ہیں جن میں نہایت غلط سلط روایات بیان کی جاتی ہیں، چراغاں اور شیرنی کا اہتمام خاص ہوتا ہے اور اس عقیدہ سے قیام کر کے سلام پڑھا جاتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک خود اس محفل میں تشریف لائی ہے۔ یہ جملہ امور غلط بے ثبوت ہیں جن کے کرنے سے بدعت کا ارتکاب لازم آتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا کہ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد جو ہمارے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرے جس کا ثبوت ادلہ شرعیہ سے نہ ہو وہ مردود ہے۔
زبیدی کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ میں اور طبرانی نے معجم کبیر میں نکالا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض اس بیان سے یہ ہے کہ زہری کے شیخ میں راویوں کا اختلاف ہے۔ یونس اور عقیل نے ہیثم بن ابی سنان کہا ہے اور زبیدی نے سعید بن مسیب اور اعرج اور ممکن ہے کہ زہری نے ان تینوں سے اس حدیث کو سنا ہو، حافظ نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک پہلا طریق راجح ہے کیونکہ یونس اور عقیل دونوں نے بالاتفاق زہری کا شیخ ہیثم کو قرار دیا ہے ( وحیدی )
اس حدیث سے ثابت ہو اکہ مجالس وعظ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا نظم ونثر میں ذکر کرنا درست اور جائز ہے۔ سیرت کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اور حیات طیبہ کے واقعات کا ذکر کرنا باعث ازدیاد ایمان ہے لیکن محافل میلاد مروجہ کا انعقاد کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں۔ عہد صحابہ وتابعین وتبع تابعین وائمہ مجتہدین وجملہ محدثین کرام میں ایسی محافل کا نام ونشان بھی نہیں ملتا۔ پورے چھ سو سال گرز گئے دنیائے اسلام محفل میلاد کے نام سے بھی آشنا نہ تھی۔ تاریخ ابن خلکان میں ہے کہ اس محفل کا موجد اول ایک بادشاہ ابو سعید مظفرالدین نامی تھا، جو نزد موصل اربل نامی شہر کا حاکم تھا۔ علمائے راسخین نے اسی وقت سے اس نوایجاد محفل کی مخالفت فرمائی۔ مگر صد افسوس کہ نام نہاد فدائیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی بڑے طنطنہ سے ایسی محافل کرتے ہیں جن میں نہایت غلط سلط روایات بیان کی جاتی ہیں، چراغاں اور شیرنی کا اہتمام خاص ہوتا ہے اور اس عقیدہ سے قیام کر کے سلام پڑھا جاتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک خود اس محفل میں تشریف لائی ہے۔ یہ جملہ امور غلط بے ثبوت ہیں جن کے کرنے سے بدعت کا ارتکاب لازم آتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا کہ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد جو ہمارے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرے جس کا ثبوت ادلہ شرعیہ سے نہ ہو وہ مردود ہے۔