‌صحيح البخاري - حدیث 1149

كِتَابُ التَّهَجُّدِ بَابُ فَضْلِ الطُّهُورِ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَفَضْلِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الوُضُوءِ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ أَبِي حَيَّانَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الْإِسْلَامِ فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ قَالَ مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طَهُورًا فِي سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ دَفَّ نَعْلَيْكَ يَعْنِي تَحْرِيكَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1149

کتاب: تہجد کا بیان باب: دن، رات باوضو رہنے کی فضیلت ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ حماد بن اسابہ نے بیان کیا، ان سے ابو حیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابو زرعہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فجر کے وقت پوچھا کہ اے بلال! مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک کام بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہے کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے نفل نماز پڑھتا رہتا جتنی میری تقدیر لکھی گئی تھی۔
تشریح : یعنی جیسے تو بہشت میں چل رہاہے اور تیری جوتیوں کی آواز نکل رہی ہے۔ یہ اللہ تعالی نے آپ کو دکھلادیا جو نظر آیا وہ ہونے والا تھا۔ علماءکا اس پر اتفاق ہے کہ بہشت میں بیداری کے عالم میں اس دنیا میں رہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں گیا۔ آپ معراج کی شب میں وہاں تشریف لے گئے۔ اسی طرح دوزخ میں اور یہ جو بعض فقراءسے منقول ہے کہ ان کا خادم حقہ کی آگ لینے کے لیے دوزخ میں گیا محض غلط ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ دنیا میں بھی بطور خادم کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سامان وغیرہ لے کر چلا کرتے، ویسا ہی اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو دکھلادیا کہ بہشت میں بھی ہوگا۔ اس حدیث سے بلال رضی اللہ عنہ کی فضیلت نکلی اور ان کا جنتی ہونا ثابت ہوا ( وحیدی ) یعنی جیسے تو بہشت میں چل رہاہے اور تیری جوتیوں کی آواز نکل رہی ہے۔ یہ اللہ تعالی نے آپ کو دکھلادیا جو نظر آیا وہ ہونے والا تھا۔ علماءکا اس پر اتفاق ہے کہ بہشت میں بیداری کے عالم میں اس دنیا میں رہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں گیا۔ آپ معراج کی شب میں وہاں تشریف لے گئے۔ اسی طرح دوزخ میں اور یہ جو بعض فقراءسے منقول ہے کہ ان کا خادم حقہ کی آگ لینے کے لیے دوزخ میں گیا محض غلط ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ دنیا میں بھی بطور خادم کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سامان وغیرہ لے کر چلا کرتے، ویسا ہی اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو دکھلادیا کہ بہشت میں بھی ہوگا۔ اس حدیث سے بلال رضی اللہ عنہ کی فضیلت نکلی اور ان کا جنتی ہونا ثابت ہوا ( وحیدی )