كِتَابُ التَّهَجُّدِ بَابُ الدُّعَاءِ فِي الصَّلاَةِ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُولُ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ
کتاب: تہجد کا بیان
باب: آخر رات میں دعا اور نماز کا بیان
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالکؒ نے، ان نے ا بن شہاب نے، ان سے ابو سلمہ عبد الرحمن اور ابو عبد اللہ اغر نے اور ان دونوں حضرات سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا پروردگار بلند برکت ہے ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والاہے کہ میں اس کو بخش دوں۔
تشریح :
تشریح : بلاتاویل وبلا تکییف اللہ پاک رب العالمین کا عرش معلی سے آسمان دنیا پر اترنا برحق ہے۔ جس طرح اس کا عرش عظیم پر مستوی ہونا برحق ہے۔ اہل الحدیث کا ازاول تا آخر یہی عقیدہ ہے۔ قرآن مجید کی سات آیات میں اللہ کا عرش پر مستوی ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ آسمان بھی سات ہی ہیں لہذا ان ساتوں کے اوپر عرش عظیم اور اس پر اللہ کا استواءاسی لیے سات آیات میں مذکور ہوا۔پہلی آیت سورۃ اعراف میں ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الاعراف: 54 ) تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ ایام میں آسمان اور زمین کو پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔ دوسری آیت سورۃ یونس کی ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سَتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یُدَ بِّرُالاَمرَ ( یونس:3 ) بے شک تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمان کو بنایا اور پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔ تیسری آیت سورۃ رعد میں ہے اَللّٰہُ الَّذِی رَفَعَ السَّمٰوٰت بِغَیرِ عَمَدٍ تَرَونَھَاثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الرعد: 2 ) اللہ وہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے اونچے آسمان بنائے جن کو تم دیکھ رہے ہو پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔ چوتھی آیت سورۃ طہ میں ہے تَنزِیلاً مِّمَّن خَلَقَ الاَرضَ وَالسَّمٰوٰتِ العُلٰی اَلرَّحمٰنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی ( طہ:19,20 ) یعنی اس قرآن کا نازل کرنا اس کا کام ہے جس نے زمین آسمان کو پیدا کیا پھر وہ رحمن عرش کے اوپر مستوی ہوا۔ پانچویں آیت سورہ فرقان میں ہے اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الفرقان: 59 ) وہ اللہ جس نے زمین آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔چھٹی آیت سورۃ سجدہ میں ہے۔ اَللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( السجدہ:4 ) اللہ وہ ہے جس نے زمین آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں بنایا وہ پھر عرش پر قائم ہوا۔ساتویں آیت سورہ حدید میں ہے۔ ھُوَالَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یَعلَمُ مَا یَلِجُ فِی الاَرضِ وَمَا یَخرُجُ مِنھَا وَمَا یَنزِلُ مِنَ السَّمَائِ وَمَا یَعرُجُ فِیھَا وَھُوَ مَعَکُم اَینَ مَا کُنتُم وَاللّٰہُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیر ( الحدید:4 ) یعنی اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمانوں کو بنا یا وہ پھر عرش پر قائم ہوا ان سب چیزوں کو جانتاہے جو زمین میں داخل ہوتی ہیں اور جو کچھ اس سے باہر نکلتی ہیں اور جو چیزیں آسمان سے اترتی ہیں اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتی ہیں وہ سب سے واقف ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو اور اللہ پاک تمہارے سارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔
ان سات آیتوں میں صراحت کے ساتھ اللہ پاک کا عرش عظیم پر مستوی ہونا مذکور ہے۔ آیات قرآنی کے علاوہ پندرہ احادیث نبوی ایسی ہیں جن میں اللہ پاک کاآسمانوں کے اوپر عرش اعظم پر ہونا مذکور ہے اور جن سے اس کے لیے جہت فوق ثابت ہے۔ اس حقیقت کے بعد اس باری تعالی وتقدس کا عرش عظیم سے آسمان دنیا پر نزول فرمانا یہ بھی برحق ہے۔
حضرت علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک مستقل کتاب بنام نزول الرب الی السماءالدنیا تحریر فرمائی ہے جس میں بدلائل واضحہ اس کا آسمان دنیا پر نازل ہونا ثابت فرمایا ہے۔
حضرت علامہ وحید الزماں صاحب کے لفظوں میں خلاصہ یہ ہے یعنی وہ خود اپنی ذات سے اترتا ہے جیسے دوسری روایت میں ہے۔نزل بذاتہ اب یہ تاویل کرنا اس کی رحمت اترتی ہے، محض فاسد ہے۔ علاوہ اس کے اس کی رحمت اتر کر آسمان تک رہ جانے سے ہم کو فائدہ ہی کیا ہے، اس طرح یہ تاویل کہ ایک فرشتہ اس کا اترتا ہے یہ بھی فاسد ہے کیونکہ فرشتہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے جو کوئی مجھ سے دعا کرے میں قبول کروں گا، گناہ بخش دوں گا۔ دعا قبول کرنا یا گناہوں کا بخش دینا خاص پروردگار کا کام ہے۔اہل حدیث نے اس قسم کی حدیثوں کو جن میں صفات الہی کا بیان ہے، بہ دل وجان قبول کیا ہے اور ان کے اپنے ظاہری معنی پر محمول رکھا ہے، مگر یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں اور ہمارے اصحاب میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں ایک کتاب لکھی ہے جو دیکھنے کے قابل ہے اور مخالفوں کے تمام اعتراضوں اور شبہوں کا جواب دیا ہے۔
اس حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے المحدث الکبیر حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مبارکپوری فرماتے ہیں: ومنھم من اجراہ علی ما ورد مومنا بہ علی طریق الاجمال منزھا اللہ تعالی من الکیفیۃ والتشبیہ وھم جمھور السلف ونقلہ البیھقی وغیرہ عن الائمۃ الاربعۃ السفیانین والحمادین والاوزاعی واللیث وغیرھم وھذا القول ھو الحق فعلیک اتباع جمھور السلف وایاک ان تکون من اصحاب التاویل واللہ تعالی اعلم۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی سلف صالحین وائمہ اربعہ اور بیشتر علمائے دین اسلاف کرام کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ بغیر تاویل اور کیفیت اورتشبیہ کے کہ اللہ اس سے پاک ہے جس طرح سے یہ صفات باری تعالی وارد ہوئی ہیں۔ ان پر ایمان رکھتے ہیں اور یہی حق اور صواب ہے۔ پس سلف کی اتباع لازم پکڑلے اور تاویل والوں میں سے مت ہو کہ یہی حق ہے۔ واللہ اعلم۔
تشریح : بلاتاویل وبلا تکییف اللہ پاک رب العالمین کا عرش معلی سے آسمان دنیا پر اترنا برحق ہے۔ جس طرح اس کا عرش عظیم پر مستوی ہونا برحق ہے۔ اہل الحدیث کا ازاول تا آخر یہی عقیدہ ہے۔ قرآن مجید کی سات آیات میں اللہ کا عرش پر مستوی ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ آسمان بھی سات ہی ہیں لہذا ان ساتوں کے اوپر عرش عظیم اور اس پر اللہ کا استواءاسی لیے سات آیات میں مذکور ہوا۔پہلی آیت سورۃ اعراف میں ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الاعراف: 54 ) تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ ایام میں آسمان اور زمین کو پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔ دوسری آیت سورۃ یونس کی ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سَتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یُدَ بِّرُالاَمرَ ( یونس:3 ) بے شک تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمان کو بنایا اور پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔ تیسری آیت سورۃ رعد میں ہے اَللّٰہُ الَّذِی رَفَعَ السَّمٰوٰت بِغَیرِ عَمَدٍ تَرَونَھَاثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الرعد: 2 ) اللہ وہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے اونچے آسمان بنائے جن کو تم دیکھ رہے ہو پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔ چوتھی آیت سورۃ طہ میں ہے تَنزِیلاً مِّمَّن خَلَقَ الاَرضَ وَالسَّمٰوٰتِ العُلٰی اَلرَّحمٰنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی ( طہ:19,20 ) یعنی اس قرآن کا نازل کرنا اس کا کام ہے جس نے زمین آسمان کو پیدا کیا پھر وہ رحمن عرش کے اوپر مستوی ہوا۔ پانچویں آیت سورہ فرقان میں ہے اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الفرقان: 59 ) وہ اللہ جس نے زمین آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔چھٹی آیت سورۃ سجدہ میں ہے۔ اَللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( السجدہ:4 ) اللہ وہ ہے جس نے زمین آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں بنایا وہ پھر عرش پر قائم ہوا۔ساتویں آیت سورہ حدید میں ہے۔ ھُوَالَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یَعلَمُ مَا یَلِجُ فِی الاَرضِ وَمَا یَخرُجُ مِنھَا وَمَا یَنزِلُ مِنَ السَّمَائِ وَمَا یَعرُجُ فِیھَا وَھُوَ مَعَکُم اَینَ مَا کُنتُم وَاللّٰہُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیر ( الحدید:4 ) یعنی اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمانوں کو بنا یا وہ پھر عرش پر قائم ہوا ان سب چیزوں کو جانتاہے جو زمین میں داخل ہوتی ہیں اور جو کچھ اس سے باہر نکلتی ہیں اور جو چیزیں آسمان سے اترتی ہیں اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتی ہیں وہ سب سے واقف ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو اور اللہ پاک تمہارے سارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔
ان سات آیتوں میں صراحت کے ساتھ اللہ پاک کا عرش عظیم پر مستوی ہونا مذکور ہے۔ آیات قرآنی کے علاوہ پندرہ احادیث نبوی ایسی ہیں جن میں اللہ پاک کاآسمانوں کے اوپر عرش اعظم پر ہونا مذکور ہے اور جن سے اس کے لیے جہت فوق ثابت ہے۔ اس حقیقت کے بعد اس باری تعالی وتقدس کا عرش عظیم سے آسمان دنیا پر نزول فرمانا یہ بھی برحق ہے۔
حضرت علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک مستقل کتاب بنام نزول الرب الی السماءالدنیا تحریر فرمائی ہے جس میں بدلائل واضحہ اس کا آسمان دنیا پر نازل ہونا ثابت فرمایا ہے۔
حضرت علامہ وحید الزماں صاحب کے لفظوں میں خلاصہ یہ ہے یعنی وہ خود اپنی ذات سے اترتا ہے جیسے دوسری روایت میں ہے۔نزل بذاتہ اب یہ تاویل کرنا اس کی رحمت اترتی ہے، محض فاسد ہے۔ علاوہ اس کے اس کی رحمت اتر کر آسمان تک رہ جانے سے ہم کو فائدہ ہی کیا ہے، اس طرح یہ تاویل کہ ایک فرشتہ اس کا اترتا ہے یہ بھی فاسد ہے کیونکہ فرشتہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے جو کوئی مجھ سے دعا کرے میں قبول کروں گا، گناہ بخش دوں گا۔ دعا قبول کرنا یا گناہوں کا بخش دینا خاص پروردگار کا کام ہے۔اہل حدیث نے اس قسم کی حدیثوں کو جن میں صفات الہی کا بیان ہے، بہ دل وجان قبول کیا ہے اور ان کے اپنے ظاہری معنی پر محمول رکھا ہے، مگر یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں اور ہمارے اصحاب میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں ایک کتاب لکھی ہے جو دیکھنے کے قابل ہے اور مخالفوں کے تمام اعتراضوں اور شبہوں کا جواب دیا ہے۔
اس حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے المحدث الکبیر حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مبارکپوری فرماتے ہیں: ومنھم من اجراہ علی ما ورد مومنا بہ علی طریق الاجمال منزھا اللہ تعالی من الکیفیۃ والتشبیہ وھم جمھور السلف ونقلہ البیھقی وغیرہ عن الائمۃ الاربعۃ السفیانین والحمادین والاوزاعی واللیث وغیرھم وھذا القول ھو الحق فعلیک اتباع جمھور السلف وایاک ان تکون من اصحاب التاویل واللہ تعالی اعلم۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی سلف صالحین وائمہ اربعہ اور بیشتر علمائے دین اسلاف کرام کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ بغیر تاویل اور کیفیت اورتشبیہ کے کہ اللہ اس سے پاک ہے جس طرح سے یہ صفات باری تعالی وارد ہوئی ہیں۔ ان پر ایمان رکھتے ہیں اور یہی حق اور صواب ہے۔ پس سلف کی اتباع لازم پکڑلے اور تاویل والوں میں سے مت ہو کہ یہی حق ہے۔ واللہ اعلم۔