كِتَابُ العِلْمِ بَابُ كِتَابَةِ العِلْمِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ قَالَ: «ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لاَ تَضِلُّوا بَعْدَهُ» قَالَ عُمَرُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الوَجَعُ، وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا. فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: «قُومُوا عَنِّي، وَلاَ يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ» فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ: «إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ، مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ»
کتاب: علم کے بیان میں
باب: علوم دین کو قلم بند کرنے کے بیان میں
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے، انھیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ سے، وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تا کہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تا کہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( لوگوں سے ) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں ( ہدایت کے لیے ) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بے شک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے ( وہ چیز جو ) ہمارے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔
تشریح :
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چارروز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وقد کان عمرافقہ من ابن عباس حیث اکتفی بالقرآن علی انہ یحتمل ان یکون صلی اللہ علیہ وسلم کان ظہرلہ حین ہم بالکتاب انہ مصلحۃ ثم ظہر لہ اواوحی الیہ بعد ان المصلحۃ فی ترکہ ولوکان واجبا لم یترکہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لاختلافہم لانہ لم یترک التکلیف بمخالفۃ من خالف وقد عاش بعدذلک ایاما ولم یعاود امرہم بذلک۔ خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے،انھوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھامگربعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگریہ حکم واجب ہوتاتوآپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چارروز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وقد کان عمرافقہ من ابن عباس حیث اکتفی بالقرآن علی انہ یحتمل ان یکون صلی اللہ علیہ وسلم کان ظہرلہ حین ہم بالکتاب انہ مصلحۃ ثم ظہر لہ اواوحی الیہ بعد ان المصلحۃ فی ترکہ ولوکان واجبا لم یترکہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لاختلافہم لانہ لم یترک التکلیف بمخالفۃ من خالف وقد عاش بعدذلک ایاما ولم یعاود امرہم بذلک۔ خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے،انھوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھامگربعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگریہ حکم واجب ہوتاتوآپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔