كِتَابُ التَّهَجُّدِ بَابٌ: كَيْفَ كَانَ صَلاَةُ النَّبِيِّ ؟ وَكَمْ كَانَ النَّبِيُّ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ؟ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ إِنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ صَلَاةُ اللَّيْلِ قَالَ مَثْنَى مَثْنَى فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ
کتاب: تہجد کا بیان
باب: رات کی نماز کی کیفیت
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے سالم بن عبد اللہ نے خبر دی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! را ت کی نماز کس طرح پڑھی جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو دو رکعت اور جب طلوع صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ کر اپنی ساری نماز کو طاق بن ا لے۔
تشریح :
رات کی نماز کی کیفیت بتلائی کہ وہ دو دو رکعت پڑھی جائے۔ اس طرح آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ کر اسے طاق بنا لیا جائے۔ اسی بنا پر رات کی نماز کو جس کا نام غیر رمضان میں تہجد ہے اور رمضان میں تراویح، گیارہ رکعت پڑھنا مسنون ہے جس میں آٹھ رکعتیں دو دو رکعت کے سلام سے پڑھی جائیں گی پھرآخر میں تین رکعات وتر ہوں گے یا دس رکعات ادا کر کے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ لیا جائے اور اگر فجر قریب ہو تو پھر جس قدر بھی رکعتیں پڑھی جا چکی ہیں ان پر اکتفاکرتے ہوئے ایک رکعت وتر پڑھ کر ان کو طاق بنا لیا جائے۔ اس حدیث سے صاف ایک رکعت وتر ثابت ہے۔ مگر حنفی حضرات ایک رکعت وتر کا انکار کرتے ہیں۔
اس حدیث کے ذیل علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: وھو حجۃ للشافعیۃ علی جواز الایتار برکعۃ واحدۃ قال النووی وھو مذھب الجمھور وقال ابو حنیفۃ لا یصح بواحدۃ ولا تکون الرکعۃ الواحدۃ صلوۃ قط والاحادیث الصحیحۃ ترد علیہ۔ یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر کا صحیح ہونا ثابت ہو رہاہے اورجمہور کا یہی مذہب ہے۔ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے کہ ایک رکعت کوئی نماز نہیں ہی ہے حالانکہ احادیث صحیحہ ان کے اس خیال کی تردید کررہی ہیں
رات کی نماز کی کیفیت بتلائی کہ وہ دو دو رکعت پڑھی جائے۔ اس طرح آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ کر اسے طاق بنا لیا جائے۔ اسی بنا پر رات کی نماز کو جس کا نام غیر رمضان میں تہجد ہے اور رمضان میں تراویح، گیارہ رکعت پڑھنا مسنون ہے جس میں آٹھ رکعتیں دو دو رکعت کے سلام سے پڑھی جائیں گی پھرآخر میں تین رکعات وتر ہوں گے یا دس رکعات ادا کر کے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ لیا جائے اور اگر فجر قریب ہو تو پھر جس قدر بھی رکعتیں پڑھی جا چکی ہیں ان پر اکتفاکرتے ہوئے ایک رکعت وتر پڑھ کر ان کو طاق بنا لیا جائے۔ اس حدیث سے صاف ایک رکعت وتر ثابت ہے۔ مگر حنفی حضرات ایک رکعت وتر کا انکار کرتے ہیں۔
اس حدیث کے ذیل علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: وھو حجۃ للشافعیۃ علی جواز الایتار برکعۃ واحدۃ قال النووی وھو مذھب الجمھور وقال ابو حنیفۃ لا یصح بواحدۃ ولا تکون الرکعۃ الواحدۃ صلوۃ قط والاحادیث الصحیحۃ ترد علیہ۔ یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر کا صحیح ہونا ثابت ہو رہاہے اورجمہور کا یہی مذہب ہے۔ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے کہ ایک رکعت کوئی نماز نہیں ہی ہے حالانکہ احادیث صحیحہ ان کے اس خیال کی تردید کررہی ہیں