‌صحيح البخاري - حدیث 1125

كِتَابُ التَّهَجُّدِ بَابُ تَرْكِ القِيَامِ لِلْمَرِيضِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ احْتَبَسَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَبْطَأَ عَلَيْهِ شَيْطَانُهُ فَنَزَلَتْ وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1125

کتاب: تہجد کا بیان باب: مریض بیماری میں تہجد ترک سکتا ہے ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے اسود بن قیس سے خبر دی، ان سے جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام ( ایک مرتبہ چند دنوں تک ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( وحی لے کر ) نہیں آئے تو قریش کی ایک عورت ( ام جمیل ابو لہب کی بیوی ) نے کہا کہ اب اس کے شیطان نے اس کے پاس آنے سے دیر لگائی۔ اس پر یہ سورت اتری ﴿والضحی واللیل اذا سجی ماودعک ربک وماقلی﴾
تشریح : ترجمہ یہ ہے قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لے تیرے مالک نے نہ تجھ کو چھوڑا نہ تجھ سے غصے ہوا۔ اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے اور اصل یہ ہے کہ یہ حدیث اگلی حدیث کا تتمہ ہے جب آپ بیمار ہوئے تھے تو رات کا قیام چھوڑ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی آنا موقوف کر دیا اور شیطان ابو لہب کی بیوی ( ام جمیل بنت حرب اخت ابی سفیان امراۃ ابی لہب حمالۃ الحطب ) نے یہ فقرہ کہا۔ چنانچہ ابن ابی حاتم نے جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آپ کی انگلی کو پتھر کی مار لگی آپ نے فرمایا ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت تو ہے کیا ایک انگلی ہے اللہ کی راہ میں تجھ کو مار لگی خون آلودہ ہوئی۔ اسی تکلیف سے آپ دوتین روز تہجد کے لیے بھی نہ اٹھ سکے تو ایک عورت ( مذکورہ ام جمیل ) کہنے لگی میں سمجھتی ہوں اب تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا۔ اس وقت یہ سورۃ اتری والضحی واللیل اذا سجی ما ودعک ربک وما قلی ( الضحی:1-3 ) ( وحیدی ) احادیث گذشتہ کو بخاری شریف کے بعض نسخوں میں لفظ ح سے نقل کر کے ہر دوکو ایک ہی حدیث شمار کیا گیا ہے ترجمہ یہ ہے قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لے تیرے مالک نے نہ تجھ کو چھوڑا نہ تجھ سے غصے ہوا۔ اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے اور اصل یہ ہے کہ یہ حدیث اگلی حدیث کا تتمہ ہے جب آپ بیمار ہوئے تھے تو رات کا قیام چھوڑ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی آنا موقوف کر دیا اور شیطان ابو لہب کی بیوی ( ام جمیل بنت حرب اخت ابی سفیان امراۃ ابی لہب حمالۃ الحطب ) نے یہ فقرہ کہا۔ چنانچہ ابن ابی حاتم نے جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آپ کی انگلی کو پتھر کی مار لگی آپ نے فرمایا ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت تو ہے کیا ایک انگلی ہے اللہ کی راہ میں تجھ کو مار لگی خون آلودہ ہوئی۔ اسی تکلیف سے آپ دوتین روز تہجد کے لیے بھی نہ اٹھ سکے تو ایک عورت ( مذکورہ ام جمیل ) کہنے لگی میں سمجھتی ہوں اب تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا۔ اس وقت یہ سورۃ اتری والضحی واللیل اذا سجی ما ودعک ربک وما قلی ( الضحی:1-3 ) ( وحیدی ) احادیث گذشتہ کو بخاری شریف کے بعض نسخوں میں لفظ ح سے نقل کر کے ہر دوکو ایک ہی حدیث شمار کیا گیا ہے