‌صحيح البخاري - حدیث 111

كِتَابُ العِلْمِ بَابُ كِتَابَةِ العِلْمِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: هَلْ عِنْدَكُمْ كِتَابٌ؟ قَالَ: لاَ، إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ، أَوْ فَهْمٌ أُعْطِيَهُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ، أَوْ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ. قَالَ: قُلْتُ: فَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ؟ قَالَ: العَقْلُ، وَفَكَاكُ الأَسِيرِ، وَلاَ يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 111

کتاب: علم کے بیان میں باب: علوم دین کو قلم بند کرنے کے بیان میں ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انھیں وکیع نے سفیان سے خبر دی، انھوں نے مطرف سے سنا، انھوں نے شعبی رحمہ اللہ سے، انھوں نے ابوحجیفہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ( اور بھی ) کتاب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
تشریح : بہت سے شیعہ یہ گمان کرتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ ایسے خاص احکام اور پوشیدہ باتیں کسی صحیفے میں درج ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے ان کے علاوہ کسی اور کو نہیں بتائیں، اس لیے ابوحجیفہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا اور آپ نے صاف لفظوں میں اس خیال باطل کی تردید فرمادی۔ بہت سے شیعہ یہ گمان کرتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ ایسے خاص احکام اور پوشیدہ باتیں کسی صحیفے میں درج ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے ان کے علاوہ کسی اور کو نہیں بتائیں، اس لیے ابوحجیفہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا اور آپ نے صاف لفظوں میں اس خیال باطل کی تردید فرمادی۔