‌صحيح البخاري - حدیث 1105

کِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلاَةِ بَابُ مَنْ تَطَوَّعَ فِي السَّفَرِ، فِي غَيْرِ دُبُرِ الصَّلَوَاتِ وَقَبْلَهَا صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُسَبِّحُ عَلَى ظَهْرِ رَاحِلَتِهِ حَيْثُ كَانَ وَجْهُهُ يُومِئُ بِرَأْسِهِ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1105

کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان فرض نمازوں کے بعد اور اول کی سنتوں کے علاوہ اور دوسرے نفل سفر میں پڑھنا ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے اپنے باپ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کی پیٹھ پر خواہ اس کا منہ کسی طرف ہو تا نفل نماز سر کے اشاروں سے پڑھتے تھے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
تشریح : مطلب امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ سفرمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں کے اول اور بعد کی سنن راتبہ نہیں پڑھی ہیں ہاں اور قسم کے نوافل جیسے اشراق وغیرہ سفر میں پڑھنا منقول ہے اور فجر کی سنتوں کا سفرمیں ادا کرنا بھی ثابت ہے۔ قال ابن القیم فی الھدی وکان من ھدیہ صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر ہ الاقتصار علی الفرض ولم یحفظ عنہ انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی سنۃ الصلاۃ قبلھا ولا بعدھا الا ما کان من سنۃ الوتر والفجر فانہ لم یکن یدعھا حضرا ولا سفرا انتھیٰ ( نیل الاوطار ) یعنی علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور کتاب زاد المعاد میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک سے یہ بھی ہے کہ حالت سفر میں آپ صرف فرض کی قصر رکعتوں پر اکتفا کرتے تھے اور آپ سے ثابت نہیں کہ آپ نے سفر میں وتر اور فجر کی سنتوں کے سوا اور کوئی نماز ادا کی ہو۔ آپ ان ہر دوکو سفر اور حضر میں برابر پڑھا کر تے تھے۔ پھر علامہ ابن قیم نے ان روایات پر روشنی ڈالی ہے جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حالت سفر میں نماز نوافل ادا کرنا ثابت ہوتاہے۔ وقد سئل الاما م احمد عن التطوع فی السفر فقال ارجو ان لا یکون بالتطوع فی السفر باس یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سفر میں نوافل کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ سفر میں نوافل ادا کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے مگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا بہتر اور مقدم ہے۔ پس ہر دو امور ثابت ہوئے کہ ترک میں بھی کوئی برائی نہیں اور ادائیگی میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ وقال اللہ تعالی ماجعل علیکم فی الدین من حرج والحمد للہ علی نعمائہ الکاملۃ۔ مطلب امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ سفرمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں کے اول اور بعد کی سنن راتبہ نہیں پڑھی ہیں ہاں اور قسم کے نوافل جیسے اشراق وغیرہ سفر میں پڑھنا منقول ہے اور فجر کی سنتوں کا سفرمیں ادا کرنا بھی ثابت ہے۔ قال ابن القیم فی الھدی وکان من ھدیہ صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر ہ الاقتصار علی الفرض ولم یحفظ عنہ انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی سنۃ الصلاۃ قبلھا ولا بعدھا الا ما کان من سنۃ الوتر والفجر فانہ لم یکن یدعھا حضرا ولا سفرا انتھیٰ ( نیل الاوطار ) یعنی علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور کتاب زاد المعاد میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک سے یہ بھی ہے کہ حالت سفر میں آپ صرف فرض کی قصر رکعتوں پر اکتفا کرتے تھے اور آپ سے ثابت نہیں کہ آپ نے سفر میں وتر اور فجر کی سنتوں کے سوا اور کوئی نماز ادا کی ہو۔ آپ ان ہر دوکو سفر اور حضر میں برابر پڑھا کر تے تھے۔ پھر علامہ ابن قیم نے ان روایات پر روشنی ڈالی ہے جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حالت سفر میں نماز نوافل ادا کرنا ثابت ہوتاہے۔ وقد سئل الاما م احمد عن التطوع فی السفر فقال ارجو ان لا یکون بالتطوع فی السفر باس یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سفر میں نوافل کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ سفر میں نوافل ادا کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے مگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا بہتر اور مقدم ہے۔ پس ہر دو امور ثابت ہوئے کہ ترک میں بھی کوئی برائی نہیں اور ادائیگی میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ وقال اللہ تعالی ماجعل علیکم فی الدین من حرج والحمد للہ علی نعمائہ الکاملۃ۔