کِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلاَةِ بَابُ صَلاَةِ التَّطَوُّعِ عَلَى الحِمَارِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَبَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ قَالَ اسْتَقْبَلْنَا أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حِينَ قَدِمَ مِنْ الشَّأْمِ فَلَقِينَاهُ بِعَيْنِ التَّمْرِ فَرَأَيْتُهُ يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ وَوَجْهُهُ مِنْ ذَا الْجَانِبِ يَعْنِي عَنْ يَسَارِ الْقِبْلَةِ فَقُلْتُ رَأَيْتُكَ تُصَلِّي لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ فَقَالَ لَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَهُ لَمْ أَفْعَلْهُ رَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
باب: نفل نماز سواری پر بیٹھے ہوئے ادا کرنا
ہم سے احمد بن سعید نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے حبان بن ہلال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ انس رضی اللہ عنہ شام سے جب ( حجاج کی خلیفہ سے شکایت کرکے ) واپس ہوئے تو ہم ان سے عین التمر میں ملے۔ میں نے دیکھا کہ آپ گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھ رہے تھے ا ور آپ کا منہ قبلہ سے بائیں طرف تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ میں نے آپ کو قبلہ کے سوا دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی نہ کرتا۔ اس روایت کو ابراہیم ابن طہمان نے بھی حجاج سے، انہوں نے انس بن سیرین سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیاہے۔
تشریح :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بصرہ سے شام میں خلیفہ وقت عبد الملک بن مروان کے ہاں حجاج بن یوسف ظالم ثقفی کی شکایت لے کر گئے تھے۔ جب لوٹ کر بصرہ آئے تو انس بن سیرین آپ کے استقبال کو گئے اور آپ کو دیکھا کہ گدھے پر نفل نماز اشاروں سے ادا کر رہے ہیں اور منہ بھی غیر قبلہ کی طرف ہے۔آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سواری پر نفل نماز ایسے ہی پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ روایت مسلم میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یوں ہے رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی علی حمار وھو متوجہ الی خیبر کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ ( نفل نماز ) گدھے پر ادا فرما رہے تھے اور آپ کا چہرہ مبارک خیبر کی طرف تھا۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو ابراہیم بن طہمان کی سند سے نقل فرمایا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ کو یہ حدیث ابراہیم بن طہمان کے طریق سے موصولا نہیں ملی، البتہ سراج نے عمرو بن عامر سے، انہوں نے حجاج سے، اس لفظ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے چاہے جدھر وہ منہ کرتی تو حضر ت انس رضی اللہ عنہ نے گدھے پر نماز پڑھنے کو اونٹنی کے اوپر پڑھنے پر قیاس کیا اور سراج نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا اور آپ خیبر کی طرف منہ کئے ہوئے تھے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں کہ نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا بالاجماع فرض ہے۔ مگر جب آدمی عاجز ہو یا خوف ہو یا نفل نماز ہو تو ان حالات میں یہ فرض اٹھ جاتا ہے۔ نفل نماز کے لیے بھی ضروری ہے کہ شروع کرتے وقت نیت باندھنے پر منہ قبلہ رخ ہو بعد میں وہ سواری جدھر بھی رخ کرے نماز نفل ادا کرنا جائز ہے۔ عین التمر ایک گاؤں ملک شام میں عراق کی طرف واقع ہے۔
اس روایت سے ثابت ہو اکہ کسی ظالم حاکم کی شکایت بڑے حاکم کو پہنچانا معیوب نہیں ہے اور یہ کہ کسی بزرگ کے استقبال کے لیے چل کر جانا عین ثواب ہے اور یہ بھی کہ بڑے لوگوںسے چھوٹے آدمی مسائل کی تحقیق کر سکتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دلیل پیش کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ مومن کے لیے اس سے آگے گنجائش نہیں۔ اس لیے بالکل سچ کہا گیا ہے۔
اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن
یعنی دین کی بنیاد ہی یہ ہے کہ قرآن مجید کو حد درجہ قابل تعظیم کہا جائے اور پس احادیث نبوی کو دل وجان سے تسلیم کیا جائے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بصرہ سے شام میں خلیفہ وقت عبد الملک بن مروان کے ہاں حجاج بن یوسف ظالم ثقفی کی شکایت لے کر گئے تھے۔ جب لوٹ کر بصرہ آئے تو انس بن سیرین آپ کے استقبال کو گئے اور آپ کو دیکھا کہ گدھے پر نفل نماز اشاروں سے ادا کر رہے ہیں اور منہ بھی غیر قبلہ کی طرف ہے۔آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سواری پر نفل نماز ایسے ہی پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ روایت مسلم میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یوں ہے رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی علی حمار وھو متوجہ الی خیبر کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ ( نفل نماز ) گدھے پر ادا فرما رہے تھے اور آپ کا چہرہ مبارک خیبر کی طرف تھا۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو ابراہیم بن طہمان کی سند سے نقل فرمایا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ کو یہ حدیث ابراہیم بن طہمان کے طریق سے موصولا نہیں ملی، البتہ سراج نے عمرو بن عامر سے، انہوں نے حجاج سے، اس لفظ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے چاہے جدھر وہ منہ کرتی تو حضر ت انس رضی اللہ عنہ نے گدھے پر نماز پڑھنے کو اونٹنی کے اوپر پڑھنے پر قیاس کیا اور سراج نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا اور آپ خیبر کی طرف منہ کئے ہوئے تھے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں کہ نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا بالاجماع فرض ہے۔ مگر جب آدمی عاجز ہو یا خوف ہو یا نفل نماز ہو تو ان حالات میں یہ فرض اٹھ جاتا ہے۔ نفل نماز کے لیے بھی ضروری ہے کہ شروع کرتے وقت نیت باندھنے پر منہ قبلہ رخ ہو بعد میں وہ سواری جدھر بھی رخ کرے نماز نفل ادا کرنا جائز ہے۔ عین التمر ایک گاؤں ملک شام میں عراق کی طرف واقع ہے۔
اس روایت سے ثابت ہو اکہ کسی ظالم حاکم کی شکایت بڑے حاکم کو پہنچانا معیوب نہیں ہے اور یہ کہ کسی بزرگ کے استقبال کے لیے چل کر جانا عین ثواب ہے اور یہ بھی کہ بڑے لوگوںسے چھوٹے آدمی مسائل کی تحقیق کر سکتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دلیل پیش کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ مومن کے لیے اس سے آگے گنجائش نہیں۔ اس لیے بالکل سچ کہا گیا ہے۔
اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن
یعنی دین کی بنیاد ہی یہ ہے کہ قرآن مجید کو حد درجہ قابل تعظیم کہا جائے اور پس احادیث نبوی کو دل وجان سے تسلیم کیا جائے۔