کِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلاَةِ بَابٌ: كَمْ أَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ فِي حَجَّتِهِ؟ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ لِصُبْحِ رَابِعَةٍ يُلَبُّونَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً إِلَّا مَنْ مَعَهُ الْهَدْيُ تَابَعَهُ عَطَاءٌ عَنْ جَابِرٍ
کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
باب: حج کے موقعہ پر قیام
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیا ن کیا کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ان سے ابوالعالیہ براء نے ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ساتھ لے کر تلبیہ کہتے ہوئے ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کو ( مکہ میں ) تشریف لائے پھر آپ نے فرمایا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے وہ بجائے حج کے عمرہ کی نیت کر لیں اور عمرہ سے فارغ ہو کر حلال ہوجائیں پھر حج کا احرام باندھیں۔ اس حدیث کی متابعت عطاءنے جابر سے کی ہے۔
تشریح :
کیونکہ آپ چوتھی ذی الحجہ کو مکہ معظمہ پہنچے تھے اور چودھویں کو مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے تو مدت اقامت کل دس دن ہوئی اور مکہ میں صرف چار دن رہنا ہوا باقی ایام منیٰ وغیرہ میں صرف ہوئے اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ جب مسافر کسی مقام میں چار دن سے زیادہ رہنے کی نیت کرے تو پوری نماز پڑھے چار دن تک قصر کرتا رہے اور امام احمد نے کہا اکیس نمازوں تک ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) پچھلی روایت جس میں آپ کا قیام اکیس دن مذکور ہے اس میں یہ قیام فتح مکہ سے متعلق ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مغازی میں دوسرے طریق سے اقامت کا مقام مکہ بیان فرمایا ہے جہاں آپ نے انیس دن قیام فرمایا اورآپ نماز قصرکرتے رہے معلوم ہوا کہ قصر کے لیے یہ آخری حد ہے اگر اس سے زیادہ ٹھہرنے کا فیصلہ ہو تو نماز پوری پڑھنی ہوگی اور اگر فیصلہ نہ کر سکے اور تردد میں آج کل آج کل کر تا رہ جائے تو وہ جب تک اس حالت میں ہے قصر کر سکتا ہے جیسا کہ زاد المعاد میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بیان فرمایا :ومنھا انہ صلی اللہ علیہ وسلم اقام بتبوک عشرین یوما یقصر الصلوۃ ولم یقل للامۃ لا یقصر الرجل الصلوۃ اذا قام اکثر من ذلک ولکن انفق اقامتہ ھذہ المدۃ وھذہ الاقامۃ فی حالۃ السفر لا تخرج عن حکم السفر سواءطالت او قصرت اذا کان غیر متوطن ولا عازم علی الاقامۃ بذلک الموضع۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں بیس دن تک مقیم رہے اور نماز قصر فرماتے رہے اور آپ نے امت کے لیے نہیں فرمایا کہ امت میں سے اگر کسی کا اس سے بھی زیادہ کہیں ( حالت سفر میں ) اقامت کا موقعہ آجائے تو وہ قصر نہ کرے۔ ایسا آپ نے کہیں نہیں فرمایا پس جب کوئی شخص سفر میں کسی جگہ بہ حیثیت وطن کے نہ اقامت کرے اور نہ وہاں اقامت کا عزم ہو مگر آج کل میں تردد رہے تو اس کی مدت اقامت کم ہو یا زیادہ وہ بہر حال سفر کے حکم میں ہے اور نماز قصر کر سکتا ہے۔
حافظ نے کہا کہ بعض لوگوں نے احمد سے امام احمد بن حنبل کو سمجھا یہ بالکل غلط ہے کیونکہ امام احمد نے عبد اللہ بن مبارک سے نہیں سنا ( وحیدی )
کیونکہ آپ چوتھی ذی الحجہ کو مکہ معظمہ پہنچے تھے اور چودھویں کو مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے تو مدت اقامت کل دس دن ہوئی اور مکہ میں صرف چار دن رہنا ہوا باقی ایام منیٰ وغیرہ میں صرف ہوئے اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ جب مسافر کسی مقام میں چار دن سے زیادہ رہنے کی نیت کرے تو پوری نماز پڑھے چار دن تک قصر کرتا رہے اور امام احمد نے کہا اکیس نمازوں تک ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) پچھلی روایت جس میں آپ کا قیام اکیس دن مذکور ہے اس میں یہ قیام فتح مکہ سے متعلق ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مغازی میں دوسرے طریق سے اقامت کا مقام مکہ بیان فرمایا ہے جہاں آپ نے انیس دن قیام فرمایا اورآپ نماز قصرکرتے رہے معلوم ہوا کہ قصر کے لیے یہ آخری حد ہے اگر اس سے زیادہ ٹھہرنے کا فیصلہ ہو تو نماز پوری پڑھنی ہوگی اور اگر فیصلہ نہ کر سکے اور تردد میں آج کل آج کل کر تا رہ جائے تو وہ جب تک اس حالت میں ہے قصر کر سکتا ہے جیسا کہ زاد المعاد میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بیان فرمایا :ومنھا انہ صلی اللہ علیہ وسلم اقام بتبوک عشرین یوما یقصر الصلوۃ ولم یقل للامۃ لا یقصر الرجل الصلوۃ اذا قام اکثر من ذلک ولکن انفق اقامتہ ھذہ المدۃ وھذہ الاقامۃ فی حالۃ السفر لا تخرج عن حکم السفر سواءطالت او قصرت اذا کان غیر متوطن ولا عازم علی الاقامۃ بذلک الموضع۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں بیس دن تک مقیم رہے اور نماز قصر فرماتے رہے اور آپ نے امت کے لیے نہیں فرمایا کہ امت میں سے اگر کسی کا اس سے بھی زیادہ کہیں ( حالت سفر میں ) اقامت کا موقعہ آجائے تو وہ قصر نہ کرے۔ ایسا آپ نے کہیں نہیں فرمایا پس جب کوئی شخص سفر میں کسی جگہ بہ حیثیت وطن کے نہ اقامت کرے اور نہ وہاں اقامت کا عزم ہو مگر آج کل میں تردد رہے تو اس کی مدت اقامت کم ہو یا زیادہ وہ بہر حال سفر کے حکم میں ہے اور نماز قصر کر سکتا ہے۔
حافظ نے کہا کہ بعض لوگوں نے احمد سے امام احمد بن حنبل کو سمجھا یہ بالکل غلط ہے کیونکہ امام احمد نے عبد اللہ بن مبارک سے نہیں سنا ( وحیدی )