کِتَابُ سُجُودِ القُرْآنِ بَابُ سَجْدَةِ النَّجْمِ صحيح حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ سُورَةَ النَّجْمِ فَسَجَدَ بِهَا فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ مِنْ الْقَوْمِ إِلَّا سَجَدَ فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ كَفًّا مِنْ حَصًى أَوْ تُرَابٍ فَرَفَعَهُ إِلَى وَجْهِهِ وَقَالَ يَكْفِينِي هَذَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا
کتاب: سجود قرآن کے مسائل
باب: سورۃ نجم میں سجدہ کا بیان
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ابو اسحاق سے بیان کیا، ان سے اسود نے، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ نجم کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اس وقت قوم کا کوئی فرد ( مسلمان اور کافر ) بھی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ البتہ ایک شخص نے ہاتھ میں کنکری یا مٹی لے کر اپنے چہرہ تک اٹھائی اور کہا کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بعد میں میں نے دیکھا کہ وہ کفرکی حالت ہی میں قتل ہوا۔ ( یہ امیہ بن خلف تھا )
تشریح :
اس حدیث سے سورۃ نجم میں سجدہ تلاوت بھی ثابت ہوا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فلعل جمیع من وفق للسجود یومئذ ختم لہ بالحسنیٰ فاسلم لبرکۃ السجود یعنی جن جن لوگوں نے اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کر لیا ( خواہ ان میں سے کافروں کی نیت کچھ بھی ہو بہرحال ) ان کو سجدہ کی برکت سے اسلام لانے کی توفیق ہوئی اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوا۔ بعد کے واقعات سے ثابت ہے کہ کفار مکہ بڑی تعداد میں مسلمان ہوگئے تھے جن میں یقینا اس موقعہ پر یہ سجدہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔ مگر امیہ بن خلف نے آج بھی سجدہ نہیں کیا بلکہ رسماً مٹی کو ہاتھ میں لے کر سر سے لگا لیا اس تکبر کی وجہ سے اس کو اسلام نصیب نہیں ہوا۔ آخر کفر کی ہی حالت میں وہ مارا گیا۔
خلاصہ یہ کہ سورۃ نجم میں بھی سجدہ ہے اور یہ عزائم السجود میں شمار کر لیا گیا ہے یعنی جن سجدوں کا ادا کرنا ضروری ہے وعن علی ما ورد الامر فیہ بالسجود عزیمۃ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جن آیات میں سجدہ کرنے کاحکم صادر ہوا ہے وہ سجدے ضروری ہیں ( فتح ) مگر ضروری کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ فرض واجب ہوں جب کہ سجدہ تلاوت سنت کے درجہ میں ہے یہ امر علیحدہ ہے کہ ہر سنت نبوی پر عمل کرنا ایک مسلمان کے لیے سعادت دارین کا واحد وسیلہ ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم۔
اس حدیث سے سورۃ نجم میں سجدہ تلاوت بھی ثابت ہوا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فلعل جمیع من وفق للسجود یومئذ ختم لہ بالحسنیٰ فاسلم لبرکۃ السجود یعنی جن جن لوگوں نے اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کر لیا ( خواہ ان میں سے کافروں کی نیت کچھ بھی ہو بہرحال ) ان کو سجدہ کی برکت سے اسلام لانے کی توفیق ہوئی اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوا۔ بعد کے واقعات سے ثابت ہے کہ کفار مکہ بڑی تعداد میں مسلمان ہوگئے تھے جن میں یقینا اس موقعہ پر یہ سجدہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔ مگر امیہ بن خلف نے آج بھی سجدہ نہیں کیا بلکہ رسماً مٹی کو ہاتھ میں لے کر سر سے لگا لیا اس تکبر کی وجہ سے اس کو اسلام نصیب نہیں ہوا۔ آخر کفر کی ہی حالت میں وہ مارا گیا۔
خلاصہ یہ کہ سورۃ نجم میں بھی سجدہ ہے اور یہ عزائم السجود میں شمار کر لیا گیا ہے یعنی جن سجدوں کا ادا کرنا ضروری ہے وعن علی ما ورد الامر فیہ بالسجود عزیمۃ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جن آیات میں سجدہ کرنے کاحکم صادر ہوا ہے وہ سجدے ضروری ہیں ( فتح ) مگر ضروری کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ فرض واجب ہوں جب کہ سجدہ تلاوت سنت کے درجہ میں ہے یہ امر علیحدہ ہے کہ ہر سنت نبوی پر عمل کرنا ایک مسلمان کے لیے سعادت دارین کا واحد وسیلہ ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم۔