‌صحيح البخاري - حدیث 1068

کِتَابُ سُجُودِ القُرْآنِ بَابُ سَجْدَةِ تَنْزِيلُ السَّجْدَةُ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْجُمُعَةِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةُ وَهَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1068

کتاب: سجود قرآن کے مسائل باب: سورۃ الم تنزیل میں سجدہ کرنا تشریح : یہ حدیث ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہے مگر حضرت امام رحمہ اللہ نے اپنی وسعت نظری کی بنا پر اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر دیا جسے طبرانی نے معجم صغیر میں نکالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں سورہ الم تنزیل کی تلاوت فرمائی اور سجدہ تلاوت کیا یہ روایت حضرت امام کے شرائط پر نہ تھی۔ اس لیے یہاں صرف یہ روایت لائے جس میں خالی پہلی رکعت میں الم تنزیل پڑھنے کا ذکر ہے اس میں بھی یہ اشارہ ہے کہ اگر چہ احادیث میں سجدہ تلاوت کاذکر نہیں مگر اس میں سجدہ تلاوت ہے لہٰذا اعلاناً آپ نے سجدہ کیا ہوگا۔
تشریح : علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں لم ارفی شئی من الطریق التصریح بانہ صلی اللہ علیہ وسلم سجد لما قرا سورۃ تنزیل السجدۃ فی ھذا المحل الا فی کتاب الشریعۃ لابن ابی داؤد من طریق اخری عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال غدوت علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعۃ فی صلوۃ الفجر فقرا سورۃ فیھا سجدۃ فسجد الحدیث وفی اسنادہ من ینظر فی حالہ وللطبرانی فی الصغیر من حدیث علی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سجد فی صلوۃ الصبح فی تنزیل السجدۃ لکن فی اسنادہ ضعف یعنی میں صراحتا کسی روایت میں یہ نہیں پایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس مقام پر ( یعنی نماز فجر میں ) سورۃ الم تنزیل سجدہ کو پڑھا آپ نے یہا ں سجدہ کیا ہوہاں کتاب الشریعۃ ابن ابی داؤد میں ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے ایک جمعہ کے دن فجر کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کی اور آپ نے سجدہ والی سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ طبرانی میں حدیث علی رضی اللہ عنہ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ ان سورتوں کے فجر کی نماز میں جمعہ کے دن بلاناغہ پڑھنے میں بھید یہ ہے کہ ان میں پیدائش آدم پھر قیامت کے واقع ہونے کا ذکر ہے۔ آدم کی پیدائش جمعہ کے ہی دن ہوئی اور قیامت بھی جمعہ کے ہی دن قائم ہوگی جمعہ کے دن نماز فجر میں ان ہر دو سورتوں کو ہمیشگی کے ساتھ پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ سورہ الم تنزیل میں سجدہ تلاوت ہے پس یہ ممکن نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سورہ شریفہ کو پڑھیں اور سجدہ تلاوت نہ کریں۔ پھر طبرانی وغیرہ میں صراحت کے ساتھ اس امر کا ذکر بھی موجود ہے اس تفصیل کے بعد علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو نفی فرمائی ہے وہ اسی حقیقت بیان کردہ کی روشنی میں مطالعہ کرنی چاہیے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں لم ارفی شئی من الطریق التصریح بانہ صلی اللہ علیہ وسلم سجد لما قرا سورۃ تنزیل السجدۃ فی ھذا المحل الا فی کتاب الشریعۃ لابن ابی داؤد من طریق اخری عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال غدوت علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعۃ فی صلوۃ الفجر فقرا سورۃ فیھا سجدۃ فسجد الحدیث وفی اسنادہ من ینظر فی حالہ وللطبرانی فی الصغیر من حدیث علی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سجد فی صلوۃ الصبح فی تنزیل السجدۃ لکن فی اسنادہ ضعف یعنی میں صراحتا کسی روایت میں یہ نہیں پایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس مقام پر ( یعنی نماز فجر میں ) سورۃ الم تنزیل سجدہ کو پڑھا آپ نے یہا ں سجدہ کیا ہوہاں کتاب الشریعۃ ابن ابی داؤد میں ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے ایک جمعہ کے دن فجر کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کی اور آپ نے سجدہ والی سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ طبرانی میں حدیث علی رضی اللہ عنہ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ ان سورتوں کے فجر کی نماز میں جمعہ کے دن بلاناغہ پڑھنے میں بھید یہ ہے کہ ان میں پیدائش آدم پھر قیامت کے واقع ہونے کا ذکر ہے۔ آدم کی پیدائش جمعہ کے ہی دن ہوئی اور قیامت بھی جمعہ کے ہی دن قائم ہوگی جمعہ کے دن نماز فجر میں ان ہر دو سورتوں کو ہمیشگی کے ساتھ پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ سورہ الم تنزیل میں سجدہ تلاوت ہے پس یہ ممکن نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سورہ شریفہ کو پڑھیں اور سجدہ تلاوت نہ کریں۔ پھر طبرانی وغیرہ میں صراحت کے ساتھ اس امر کا ذکر بھی موجود ہے اس تفصیل کے بعد علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو نفی فرمائی ہے وہ اسی حقیقت بیان کردہ کی روشنی میں مطالعہ کرنی چاہیے۔