کِتَابُ الكُسُوفِ بَابُ الجَهْرِ بِالقِرَاءَةِ فِي الكُسُوفِ صحيح - وَقَالَ الأَوْزَاعِيُّ، وَغَيْرُهُ، سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ الشَّمْسَ خَسَفَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ مُنَادِيًا: بالصَّلاَةُ جَامِعَةٌ، فَتَقَدَّمَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ، وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ نَمِرٍ، سَمِعَ ابْنَ شِهَابٍ مِثْلَهُ قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَقُلْتُ: مَا صَنَعَ أَخُوكَ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ مَا صَلَّى إِلَّا رَكْعَتَيْنِ مِثْلَ الصُّبْحِ، إِذْ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ، قَالَ: أَجَلْ إِنَّهُ أَخْطَأَ السُّنَّةَ تَابَعَهُ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي الجَهْرِ
کتاب: سورج گرہن کے متعلق بیان
باب: گرہن کی نماز میں بلند آواز سے قرات کرنا
اور امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سورج گرہن لگا تو آپ نے ایک آدمی سے اعلان کرا دیا کہ نماز ہونے والی ہے پھر آپ نے دو رکعتیں چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھیں۔ ولید بن مسلم نے بیان کیا کہ مجھے عبد الرحمن بن نمر نے خبر دی اور انہوں نے ا بن شہاب سے سنا، اسی حدیث کی طرح زہری ( ا بن شہاب ) نے بیان کیا کہ اس پر میں نے ( عروہ سے ) پوچھا کہ پھر تمہارے بھائی عبد اللہ بن زبیر نے جب مدینہ میں کسوف کی نماز پڑھائی تو کیوں ایسا کیا کہ جس طرح صبح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ نماز کسوف بھی انہوں نے پڑھائی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں انہوں نے سنت کے خلاف کیا۔ عبد الرحمن بن نمر کے ساتھ اس حدیث کو سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے بھی زہری سے روایت کیا، اس میں بھی پکار کر قرات کرنے کا بیان ہے۔
تشریح :
یعنی سنت یہ تھی کہ گرہن کی نماز میں ہر رکعت میں دو رکوع کرتے دو قیام مگر عبد اللہ بن زبیر نے جو صبح کی نماز کی طرح اس میں ہر رکعت میں ایک رکوع کیا اور ایک ہی قیام تو یہ ان کی غلطی ہے وہ چوک گئے طریقہ سنت کے خلاف کیا۔ عبد الرحمن بن نمر کے بارے میں لوگوں نے کلام کیا ہے گو زہری وغیرہ نے اس کوثقہ کہاہے مگر یحییٰ بن معین نے اس کو ضعیف کہا ہے توا مام بخاری نے اس روایت کا ضعف رفع کرنے کے لیے یہ بیان فرما کر کہ عبد الرحمن کی متابعت سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے بھی کی ہے مگر متابعت سے حدیث قوی ہو جاتی ہے۔ حافظ نے کہا کہ ان کے سواعقیل اوراسحاق بن راشد نے بھی عبد الرحمن بن نمرکی متابعت کی ہے۔ سلیمان بن کثیر کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے اور سفیان بن حسین کی روایت کو ترمذی اور طحاوی نے، عقیل کی روایت کو بھی طحاوی رحمہ اللہ نے اور اسحاق بن راشد کی روایت کو دار قطنی نے وصل کیا ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
وقد ورد الجھر فیھا عن علی مرفوعا اخرجہ ابن خزیمۃوغیرہ وبہ قال صاحباابی حنیفۃ واحمد واسحاق وابن خزیمۃ وابن المنذر وغیرھما من الشافعیۃ وابن العربی۔ ( فتح الباری )
یعنی کسوف میں جہری قرات کے بارے میں حضرت علی سے بھی مرفوعا اور موقوفا ابن خزیمہ نے روایت کی ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دونوں شاگرد امام محمد اور امام ابویوسف بھی اسی کے قائل ہیں اور احمد اور اسحاق اور ابن خزیمہ اورابن منذر اورابن عربی وغیرہ بھی جہر کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔
حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ :جھر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوۃ الخسوف بقرائتہ کے ذیل میں حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں ھذا نص فی ان قرائتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوۃ الکسوف الشمس کانت جھرا لاسراو ھو یدل علی ان السنۃ فی صلوۃ الکسوف ھی الجھر بالقراءۃ لا الاسرار ویدل لذلک ایضا حدیث اسماءعند البخاری قال الزیلعی فی نصب الرایۃ ص:232ج: 2 ) الحافظ فی الدرایۃ، ص:137 وابن الھمام فی فتح القدیر والعینی فی النھایۃ وللبخاری من حدیث اسماءبنت ابی بکر قالت جھر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوۃ الکسوف انتھی ویدل لہ ایضا لہ ما روی ابن خزیمۃ والطحاوی عن علی مرفوعا وموقوفا من الجھر بالقراءۃ فی صلوۃ الکسوف قال الطحاوی بعد روایۃ الحدیث عن علی موقوفا ولو لم یجھر النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین صلی علی معہ لما جھر علی ایضا لانہ علم انہ السنۃ فلم یترک الجھر واللہ اعلم ( مرعاۃ ج:2ص:375 ) یعنی یہ حدیث اس امر پر نص ہے کہ کسوف شمس کی نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات جہری تھی سری نہ تھی اور یہ دلیل ہے کہ صلوۃ کسوف میں جہری قرات سنت ہے نہ کہ سری اور اس پر حضرت اسماءکی حدیث بھی دلیل ہے۔ زیلعی نے اپنی کتاب نصب الرایہ، ج:2ص: 232 پر اور حافظ نے درایہ، ص:137 پر اور ابن ہمام نے فتح القدیر میں اور عینی نے نہایہ میں لکھا ہے کہ امام بخاری کے لیے حدیث اسماءبنت ابی بکر بھی دلیل ہے جس میں ان کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز میں جہری قرات کی تھی اور ابن خزیمہ اور طحاوی میں بھی حضرت علی کی سند سے مرفوعا اور موقوفا ہر دو طرح سے نماز کسوف کی نماز میں قرات کی دلیل موجود ہے۔ حضرت علی کی اس روایت کوذکر فرما کر امام طحاوی نے فرمایا کہ جس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسوف کی نماز ادا کی تھی اس وقت اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جہری قرات نہ فرماتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اپنی نماز میں جہری قرات نہ کرتے۔ وہ بلا شک جانتے تھے کہ جہری سنت ہے، اس لیے انہوں نے اسے ترک نہیں کیا اورسنت نبوی کے مطابق جہری قرات کے ساتھ اسے ادا فرمایا۔
اس بارے میں کچھ علماءمتقدمین نے اختلافات بھی کئے ہیں مگر دلائل قویہ کی رو سے ترجیح جہری قرات ہی کو حاصل ہے وقال فی السیل الجرار روایۃ الجھر اصح واکثر راوی الجھر مثبت وھو مقدم علی النافی وتاول بعض الحنفیۃ حدیث عائشۃ بانہ صلی اللہ علیہ وسلم جھر بایۃ او آیتین قال فی البدائع نحمل ذلک علی انہ جھر ببعضھا اتفاقا کما روی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یسمع الآیۃ والآیتین فی صلوۃ الظھر احیانا انتھی وھذا تاویل باطل لان عائشۃ کانت تصلی فی حجر تھا قریبا من القبلۃ وکذا اختھا اسماءومن کان کذلک لا یخفی علیہ قراۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلو کانت قراءتہ سرا وکان یجھر بایۃ او آیتین احیانا کما فعل کذلک فی صلوۃ الظھر لما عبرت عن ذلک بانہ کان جھر بالقراۃ فی صلوۃ الکسوف کما لم یقل احد ممن روی قرائتہ فی صلوۃ الظھر انہ جھر فیھا بالقراۃ حوالہ مذکورہ یعنی سیل جرار میں کہا کہ جہر کی روایت صحیح اوراکثر ہیں اور جہر کی روایت کرنے والا راوی مثبت ہے جو نفی کرنے والے پر اصولا مقدم ہے بعض حنفیہ نے یہ تاویل کی ہے کہ آپ نے بعض آیات کو جہر سے پڑھ دیا تھا جیسا کہ آپ بعض دفعہ ظہر کی نماز میں بھی بعض آیات جہر سے پڑھ دیا کرتے تھے پس حدیث عائشہ میں جہری سے یہی مراد ہے اور یہ تاویل بالکل باطل ہے کیونکہ حضرت عائشہ اوران کی بہن اسماءقبلہ کے قریب اپنے حجروں میں نماز پڑھتی تھیں اور جو ایسا ہو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات مخفی رہ سکتی ہے پس اگر آپ کی قرات کسوف کی نماز میں سری ہوتی اور آپ کبھی کبھار کوئی آیت ظہر کی طرح پڑھ دیا کرتے تو عائشہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ سے جہری قرات سے نہ تعبیر کرتیں جیسا کہ آپ کے نماز ظہر میں بعض آیات کو جہری پڑھ دینے سے کسی نے بھی اس کو جہری قرات پر محمول نہیں کیا۔
یعنی سنت یہ تھی کہ گرہن کی نماز میں ہر رکعت میں دو رکوع کرتے دو قیام مگر عبد اللہ بن زبیر نے جو صبح کی نماز کی طرح اس میں ہر رکعت میں ایک رکوع کیا اور ایک ہی قیام تو یہ ان کی غلطی ہے وہ چوک گئے طریقہ سنت کے خلاف کیا۔ عبد الرحمن بن نمر کے بارے میں لوگوں نے کلام کیا ہے گو زہری وغیرہ نے اس کوثقہ کہاہے مگر یحییٰ بن معین نے اس کو ضعیف کہا ہے توا مام بخاری نے اس روایت کا ضعف رفع کرنے کے لیے یہ بیان فرما کر کہ عبد الرحمن کی متابعت سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے بھی کی ہے مگر متابعت سے حدیث قوی ہو جاتی ہے۔ حافظ نے کہا کہ ان کے سواعقیل اوراسحاق بن راشد نے بھی عبد الرحمن بن نمرکی متابعت کی ہے۔ سلیمان بن کثیر کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے اور سفیان بن حسین کی روایت کو ترمذی اور طحاوی نے، عقیل کی روایت کو بھی طحاوی رحمہ اللہ نے اور اسحاق بن راشد کی روایت کو دار قطنی نے وصل کیا ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
وقد ورد الجھر فیھا عن علی مرفوعا اخرجہ ابن خزیمۃوغیرہ وبہ قال صاحباابی حنیفۃ واحمد واسحاق وابن خزیمۃ وابن المنذر وغیرھما من الشافعیۃ وابن العربی۔ ( فتح الباری )
یعنی کسوف میں جہری قرات کے بارے میں حضرت علی سے بھی مرفوعا اور موقوفا ابن خزیمہ نے روایت کی ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دونوں شاگرد امام محمد اور امام ابویوسف بھی اسی کے قائل ہیں اور احمد اور اسحاق اور ابن خزیمہ اورابن منذر اورابن عربی وغیرہ بھی جہر کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔
حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ :جھر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوۃ الخسوف بقرائتہ کے ذیل میں حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں ھذا نص فی ان قرائتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوۃ الکسوف الشمس کانت جھرا لاسراو ھو یدل علی ان السنۃ فی صلوۃ الکسوف ھی الجھر بالقراءۃ لا الاسرار ویدل لذلک ایضا حدیث اسماءعند البخاری قال الزیلعی فی نصب الرایۃ ص:232ج: 2 ) الحافظ فی الدرایۃ، ص:137 وابن الھمام فی فتح القدیر والعینی فی النھایۃ وللبخاری من حدیث اسماءبنت ابی بکر قالت جھر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوۃ الکسوف انتھی ویدل لہ ایضا لہ ما روی ابن خزیمۃ والطحاوی عن علی مرفوعا وموقوفا من الجھر بالقراءۃ فی صلوۃ الکسوف قال الطحاوی بعد روایۃ الحدیث عن علی موقوفا ولو لم یجھر النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین صلی علی معہ لما جھر علی ایضا لانہ علم انہ السنۃ فلم یترک الجھر واللہ اعلم ( مرعاۃ ج:2ص:375 ) یعنی یہ حدیث اس امر پر نص ہے کہ کسوف شمس کی نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات جہری تھی سری نہ تھی اور یہ دلیل ہے کہ صلوۃ کسوف میں جہری قرات سنت ہے نہ کہ سری اور اس پر حضرت اسماءکی حدیث بھی دلیل ہے۔ زیلعی نے اپنی کتاب نصب الرایہ، ج:2ص: 232 پر اور حافظ نے درایہ، ص:137 پر اور ابن ہمام نے فتح القدیر میں اور عینی نے نہایہ میں لکھا ہے کہ امام بخاری کے لیے حدیث اسماءبنت ابی بکر بھی دلیل ہے جس میں ان کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز میں جہری قرات کی تھی اور ابن خزیمہ اور طحاوی میں بھی حضرت علی کی سند سے مرفوعا اور موقوفا ہر دو طرح سے نماز کسوف کی نماز میں قرات کی دلیل موجود ہے۔ حضرت علی کی اس روایت کوذکر فرما کر امام طحاوی نے فرمایا کہ جس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسوف کی نماز ادا کی تھی اس وقت اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جہری قرات نہ فرماتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اپنی نماز میں جہری قرات نہ کرتے۔ وہ بلا شک جانتے تھے کہ جہری سنت ہے، اس لیے انہوں نے اسے ترک نہیں کیا اورسنت نبوی کے مطابق جہری قرات کے ساتھ اسے ادا فرمایا۔
اس بارے میں کچھ علماءمتقدمین نے اختلافات بھی کئے ہیں مگر دلائل قویہ کی رو سے ترجیح جہری قرات ہی کو حاصل ہے وقال فی السیل الجرار روایۃ الجھر اصح واکثر راوی الجھر مثبت وھو مقدم علی النافی وتاول بعض الحنفیۃ حدیث عائشۃ بانہ صلی اللہ علیہ وسلم جھر بایۃ او آیتین قال فی البدائع نحمل ذلک علی انہ جھر ببعضھا اتفاقا کما روی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یسمع الآیۃ والآیتین فی صلوۃ الظھر احیانا انتھی وھذا تاویل باطل لان عائشۃ کانت تصلی فی حجر تھا قریبا من القبلۃ وکذا اختھا اسماءومن کان کذلک لا یخفی علیہ قراۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلو کانت قراءتہ سرا وکان یجھر بایۃ او آیتین احیانا کما فعل کذلک فی صلوۃ الظھر لما عبرت عن ذلک بانہ کان جھر بالقراۃ فی صلوۃ الکسوف کما لم یقل احد ممن روی قرائتہ فی صلوۃ الظھر انہ جھر فیھا بالقراۃ حوالہ مذکورہ یعنی سیل جرار میں کہا کہ جہر کی روایت صحیح اوراکثر ہیں اور جہر کی روایت کرنے والا راوی مثبت ہے جو نفی کرنے والے پر اصولا مقدم ہے بعض حنفیہ نے یہ تاویل کی ہے کہ آپ نے بعض آیات کو جہر سے پڑھ دیا تھا جیسا کہ آپ بعض دفعہ ظہر کی نماز میں بھی بعض آیات جہر سے پڑھ دیا کرتے تھے پس حدیث عائشہ میں جہری سے یہی مراد ہے اور یہ تاویل بالکل باطل ہے کیونکہ حضرت عائشہ اوران کی بہن اسماءقبلہ کے قریب اپنے حجروں میں نماز پڑھتی تھیں اور جو ایسا ہو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات مخفی رہ سکتی ہے پس اگر آپ کی قرات کسوف کی نماز میں سری ہوتی اور آپ کبھی کبھار کوئی آیت ظہر کی طرح پڑھ دیا کرتے تو عائشہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ سے جہری قرات سے نہ تعبیر کرتیں جیسا کہ آپ کے نماز ظہر میں بعض آیات کو جہری پڑھ دینے سے کسی نے بھی اس کو جہری قرات پر محمول نہیں کیا۔