کِتَابُ الكُسُوفِ بَابُ الصَّلاَةِ فِي كُسُوفِ القَمَرِ صحيح حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ
کتاب: سورج گرہن کے متعلق بیان
باب: چاند گرہن کی نماز پڑھنا
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن عامر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے یونس نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی تھی۔
تشریح :
یہاں یہ اعتراض ہو اہے کہ یہ حدیث ترجمہ باب سے مطابقت نہیں رکھتی اس میں تو چاند کا ذکر تک نہیں ہے اور جواب یہ ہے کہ یہ روایت مختصر ہے اس روایت کی جو آگے آتی ہے اس میں صاف چاند کا ذکر ہے تو مقصود وہی دوسری روایت ہے اور اس کو اس لیے ذکر کردیا کہ معلوم ہو جائے کہ روایت مختصر بھی مروی ہوئی ہے بعضوں نے کہا صحیح بخاری کے ایک نسخہ میں اس حدیث میں یوں ہے انکسف القمر دوسرے ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے اس طریق کی طرف اشارہ کیا ہو جس کو ابن ابی شیبہ نے نکالا اس میں یوں ہے انکسفت الشمس و القمرامام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ ایک حدیث بیان کرکے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر تے ہیں اور باب کا مطلب اس سے نکالتے ہیں ( وحیدی )
سیرت ابن حبان میں ہے کہ 5ھ میں چاند گرہن بھی ہوا تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بھی نماز با جماعت ادا کی تھی۔ معلوم ہو اکہ چاند گرہن اور سورج گرہن ہر دو کا ایک ہی حکم ہے مگر ہمارے محترم برادران احناف چاند گرہن کی نماز کے لیے نماز با جماعت کے قائل نہیں ہیں۔ اس کو تنہا پڑھنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس باب میں ان کے پاس بجزرائے قیاس کوئی دلیل پختہ نہیں ہے مگر ان کو اس پر اصرار ہے لیکن سنت رسول کے شیدائیوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طور طریقہ ہی سب سے بہتر عمدہ چیز ہے۔ الحمد لللہ علی ذلک
یہاں یہ اعتراض ہو اہے کہ یہ حدیث ترجمہ باب سے مطابقت نہیں رکھتی اس میں تو چاند کا ذکر تک نہیں ہے اور جواب یہ ہے کہ یہ روایت مختصر ہے اس روایت کی جو آگے آتی ہے اس میں صاف چاند کا ذکر ہے تو مقصود وہی دوسری روایت ہے اور اس کو اس لیے ذکر کردیا کہ معلوم ہو جائے کہ روایت مختصر بھی مروی ہوئی ہے بعضوں نے کہا صحیح بخاری کے ایک نسخہ میں اس حدیث میں یوں ہے انکسف القمر دوسرے ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے اس طریق کی طرف اشارہ کیا ہو جس کو ابن ابی شیبہ نے نکالا اس میں یوں ہے انکسفت الشمس و القمرامام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ ایک حدیث بیان کرکے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر تے ہیں اور باب کا مطلب اس سے نکالتے ہیں ( وحیدی )
سیرت ابن حبان میں ہے کہ 5ھ میں چاند گرہن بھی ہوا تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بھی نماز با جماعت ادا کی تھی۔ معلوم ہو اکہ چاند گرہن اور سورج گرہن ہر دو کا ایک ہی حکم ہے مگر ہمارے محترم برادران احناف چاند گرہن کی نماز کے لیے نماز با جماعت کے قائل نہیں ہیں۔ اس کو تنہا پڑھنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس باب میں ان کے پاس بجزرائے قیاس کوئی دلیل پختہ نہیں ہے مگر ان کو اس پر اصرار ہے لیکن سنت رسول کے شیدائیوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طور طریقہ ہی سب سے بہتر عمدہ چیز ہے۔ الحمد لللہ علی ذلک