‌صحيح البخاري - حدیث 1059

کِتَابُ الكُسُوفِ بَابُ الذِّكْرِ فِي الكُسُوفِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزِعًا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ فَأَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى بِأَطْوَلِ قِيَامٍ وَرُكُوعٍ وَسُجُودٍ رَأَيْتُهُ قَطُّ يَفْعَلُهُ وَقَالَ هَذِهِ الْآيَاتُ الَّتِي يُرْسِلُ اللَّهُ لَا تَكُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنْ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1059

کتاب: سورج گرہن کے متعلق بیان باب: سورج گرہن میں اللہ کو یاد کرنا ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے، ان سے ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دفعہ سورج گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرا کر اٹھے اس ڈر سے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔ آپ نے مسجد میں آکر بہت ہی لمبا قیام لمبا رکوع اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے نہیں دیکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی بھیجتا ہے یہ کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں آتیں بلکہ اللہ تعالی ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو فوراً اللہ تعالی کے ذکر اور اس سے استغفار کی طرف لپکو۔
تشریح : قیامت کی کچھ علامات ہیں جو پہلے ظاہر ہوں گی اور پھر اس کے بعد قیامت برپا ہوگی۔ اس حدیث میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات میں ہی قیامت ہو جانے سے ڈرے حالانکہ اس وقت قیامت کی کوئی علامت نہیں پائی جا سکتی تھی۔ اس لیے اس حدیث کے ٹکڑے کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ آپ اس طرح کھڑے ہوئے جیسے ابھی قیامت آجائے گی گویا اس سے آپ کی خشیت وخوف کی حالت کو بتانا مقصود ہے اللہ تعالی کی نشانیوں کو دیکھ کر ایک خاشع وخاضع کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر کبھی گھٹا دیکھتے یا آندھی چل پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت بھی یہی کیفیت ہو جاتی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ قیامت کی ابھی علامتیں ظہور پذیر نہیں ہوئی تھیں۔ لیکن جو اللہ تعالی کی شان جلالی وقہاری میں گم ہو تا ہے وہ ایسے مواقع پر غوروفکر سے کام نہیں لے سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جنت کی بشارت دی گئی تھی لیکن آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر حشر میں میرا معاملہ برابرسرابر پر ختم ہو جائے تو میں اسی پر راضی ہوں۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی۔ الغرض بہ نظر غور وتدبر وانصاف اگر دیکھا جائے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا چاند اور سورج گرہن کی حقیقت آپ نے ایسے جامع لفظوں میں بیان فرمادی کہ سائنس کی موجودہ معلومات اور آئندہ کی ساری معلومات اسی ایک جملہ کے اندر مدغم ہو کر رہ گئی ہیں۔ بلا شک وشبہ جملہ اختراعات جدید اور ایجادات موجودہ معلومات سائنسی سب اللہ پاک کی قدرت کی نشانیاں ہیں سب کا اولین موجد وہی ہے جس نے انسان کو ان ایجادات کے لیے ایک بیش قیمت دماغ عطا فرمادیا فتبارک اللہ احسن الخالقین والحمد للہ رب العالمین۔ قال الکرمانی ھذا تمثیل من الراوی کانہ فزع کالخاشی ان یکون القیامۃ والافکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم عالما بان الساعۃ لا تقوم وھو بین اظھرھم وقد وعد اللہ اعلاءدینہ علی الا دیان کلھا ولم یبلغ الکتاب اجلہ یعنی کرمانی نے کہا کہ یہ تمثیل راوی کی طرف سے ہے گویاآپ ایسے گھبرائے جیسے کوئی قیامت کے آنے سے ڈر رہا ہو۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو جانتے تھے کہ آپ کی موجودگی میں قیامت قائم نہیں ہوگی، اللہ نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ قیامت سے پہلے آپ کادین جملہ ادیان پر غالب آکر رہے گا اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ ابھی قیامت کے بارے میں اللہ کا نوشتہ اپنے وقت کو نہیں پہنچا ہے واللہ اعلم بالصواب وما علینا الا البلاغ۔ قیامت کی کچھ علامات ہیں جو پہلے ظاہر ہوں گی اور پھر اس کے بعد قیامت برپا ہوگی۔ اس حدیث میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات میں ہی قیامت ہو جانے سے ڈرے حالانکہ اس وقت قیامت کی کوئی علامت نہیں پائی جا سکتی تھی۔ اس لیے اس حدیث کے ٹکڑے کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ آپ اس طرح کھڑے ہوئے جیسے ابھی قیامت آجائے گی گویا اس سے آپ کی خشیت وخوف کی حالت کو بتانا مقصود ہے اللہ تعالی کی نشانیوں کو دیکھ کر ایک خاشع وخاضع کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر کبھی گھٹا دیکھتے یا آندھی چل پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت بھی یہی کیفیت ہو جاتی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ قیامت کی ابھی علامتیں ظہور پذیر نہیں ہوئی تھیں۔ لیکن جو اللہ تعالی کی شان جلالی وقہاری میں گم ہو تا ہے وہ ایسے مواقع پر غوروفکر سے کام نہیں لے سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جنت کی بشارت دی گئی تھی لیکن آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر حشر میں میرا معاملہ برابرسرابر پر ختم ہو جائے تو میں اسی پر راضی ہوں۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی۔ الغرض بہ نظر غور وتدبر وانصاف اگر دیکھا جائے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا چاند اور سورج گرہن کی حقیقت آپ نے ایسے جامع لفظوں میں بیان فرمادی کہ سائنس کی موجودہ معلومات اور آئندہ کی ساری معلومات اسی ایک جملہ کے اندر مدغم ہو کر رہ گئی ہیں۔ بلا شک وشبہ جملہ اختراعات جدید اور ایجادات موجودہ معلومات سائنسی سب اللہ پاک کی قدرت کی نشانیاں ہیں سب کا اولین موجد وہی ہے جس نے انسان کو ان ایجادات کے لیے ایک بیش قیمت دماغ عطا فرمادیا فتبارک اللہ احسن الخالقین والحمد للہ رب العالمین۔ قال الکرمانی ھذا تمثیل من الراوی کانہ فزع کالخاشی ان یکون القیامۃ والافکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم عالما بان الساعۃ لا تقوم وھو بین اظھرھم وقد وعد اللہ اعلاءدینہ علی الا دیان کلھا ولم یبلغ الکتاب اجلہ یعنی کرمانی نے کہا کہ یہ تمثیل راوی کی طرف سے ہے گویاآپ ایسے گھبرائے جیسے کوئی قیامت کے آنے سے ڈر رہا ہو۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو جانتے تھے کہ آپ کی موجودگی میں قیامت قائم نہیں ہوگی، اللہ نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ قیامت سے پہلے آپ کادین جملہ ادیان پر غالب آکر رہے گا اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ ابھی قیامت کے بارے میں اللہ کا نوشتہ اپنے وقت کو نہیں پہنچا ہے واللہ اعلم بالصواب وما علینا الا البلاغ۔