‌صحيح البخاري - حدیث 1056

کِتَابُ الكُسُوفِ بَابُ صَلاَةِ الكُسُوفِ فِي المَسْجِدِ صحيح - ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ مَرْكَبًا، فَكَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَرَجَعَ ضُحًى، فَمَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ ظَهْرَانَيِ الحُجَرِ، ثُمَّ قَامَ، فَصَلَّى وَقَامَ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ، فَسَجَدَ سُجُودًا طَوِيلًا، ثُمَّ قَامَ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ وَهُوَ دُونَ السُّجُودِ الأَوَّلِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ «أَمَرَهُمْ أَنْ يَتَعَوَّذُوا مِنْ عَذَابِ القَبْرِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1056

کتاب: سورج گرہن کے متعلق بیان باب: کسوف کی نماز مسجد میں پڑھنی چاہئے پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کے وقت سوار ہوئے ( کہیں جانے کے لیے ) ادھر سورج گرہن لگ گیا اس لیے آپ واپس آگئے، ابھی چاشت کا وقت تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے حجروں سے گزرے اور ( مسجد میں ) کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی صحابہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں صف باندھ کر کھڑے ہوگئے آپ نے قیام بہت لمبا کیا رکوع بھی بہت لمبا کیا پھر رکوع سے سر اٹھا نے کے بعد دوبارہ لمبا قیام کیا لیکن پہلے سے کم اس کے بعد رکوع بہت لمبا کیا لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم۔ پھر رکوع سے سر اٹھا کر سجدہ میں گئے اور لمبا سجدہ کیا۔ پھر لمبا قیام کیا اور یہ قیام بھی پہلے سے کم تھا۔ پھر لمبا رکوع کیا اگرچہ یہ رکوع بھی پہلے کے مقابلے میں کم تھاپھر آپ رکوع سے کھڑے ہوگئے اور لمبا قیام کیا لیکن یہ قیام پھر پہلے سے کم تھااب ( چوتھا ) رکوع کیا اگر چہ یہ رکوع بھی پہلے رکوع کے مقابلے میں کم تھا۔ پھر سجدہ کیا بہت لمبا لیکن پہلے سجدہ کے مقابلے میں کم۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد جو کچھ اللہ تعالی نے چاہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ پھر لوگوں کو سمجھایا کہ قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگیں۔
تشریح : اس حدیث اور دیگر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر کا عذاب وثواب بر حق ہے۔ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا۔ اس بارے میں شارحین بخاری لکھتے ہیں:لعظم ھو لہ وایضا فان ظلمۃ الکسوف اذا غمت الشمس تناسب ظلمۃ القبر والشئی یذکر فیخاف من ھذا کما یخاف من ھذا ومما یستنبط منہ انہ یدل علی ان عذاب القبر حق واھل السنۃ مجمعون علی الایمان بہ والتصدیق بہ ولا ینکرہ الامبتدع۔ ( حاشیہ بخاری ) یعنی اس کی ہولناک کیفیت کی وجہ سے آپ نے ایسا فرمایا اوراس لیے بھی کہ سورج گرہن کی کیفیت جب اس کی روشنی غائب ہو جائے قبر کے اندھیرے سے مناسبت رکھتی ہے۔ اسی طرح ایک چیز کا ذکر دوسری چیز کے ذکر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے اوراس سے ڈرایا جاتا ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ قبر کا عذاب حق ہے اور جملہ اہل سنت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے جو عذاب قبر کا انکار کرے وہ بدعتی ہے۔ ( انتہیٰ ) اس حدیث اور دیگر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر کا عذاب وثواب بر حق ہے۔ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا۔ اس بارے میں شارحین بخاری لکھتے ہیں:لعظم ھو لہ وایضا فان ظلمۃ الکسوف اذا غمت الشمس تناسب ظلمۃ القبر والشئی یذکر فیخاف من ھذا کما یخاف من ھذا ومما یستنبط منہ انہ یدل علی ان عذاب القبر حق واھل السنۃ مجمعون علی الایمان بہ والتصدیق بہ ولا ینکرہ الامبتدع۔ ( حاشیہ بخاری ) یعنی اس کی ہولناک کیفیت کی وجہ سے آپ نے ایسا فرمایا اوراس لیے بھی کہ سورج گرہن کی کیفیت جب اس کی روشنی غائب ہو جائے قبر کے اندھیرے سے مناسبت رکھتی ہے۔ اسی طرح ایک چیز کا ذکر دوسری چیز کے ذکر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے اوراس سے ڈرایا جاتا ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ قبر کا عذاب حق ہے اور جملہ اہل سنت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے جو عذاب قبر کا انکار کرے وہ بدعتی ہے۔ ( انتہیٰ )