‌صحيح البخاري - حدیث 1050

کِتَابُ الكُسُوفِ بَاب التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فِي الْكُسُوفِ صحيح - ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ مَرْكَبًا، فَخَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَرَجَعَ ضُحًى، فَمَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ ظَهْرَانَيِ الحُجَرِ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي وَقَامَ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ، فَسَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ، فَسَجَدَ وَانْصَرَفَ، فَقَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَتَعَوَّذُوا مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1050

کتاب: سورج گرہن کے متعلق بیان باب: سورج گرہن میں عذاب قبر سے خدا کی پناہ مانگنا پھر ایک مرتبہ صبح کو ( کہیں جانے کے لیے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اس کے بعد سورج گرہن لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن چڑھے واپس ہوئے اور اپنی بیویوں کے حجروں سے گزرتے ہوئے ( مسجد میں ) نماز کے لیے کھڑے ہوگئے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ کی اقتدا میں نیت باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی لمبا قیام کیا پھر رکوع بھی بہت طویل کیا، اس کے بعد کھڑے ہوئے اور اب کی دفعہ قیام پھر لمبا کیا لیکن پہلے سے کچھ کم، پھر رکوع کیا ور اس دفعہ بھی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور سجدہ میں گئے۔ اب آپ پھر دوبارہ کھڑے ہوئے اور بہت دیر تک قیام کیا لیکن پہلے قیام سے کچھ کم، پھر ایک لمبا رکوع کیا لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قیام میں اب کی دفعہ بھی بہت دیر تک رہے لیکن پہلے سے کم دیر تک ( چوتھی مرتبہ ) پھر رکوع کیا اور بہت دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر۔ رکوع سے سراٹھایا تو سجدہ میں چلے گئے آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نماز پوری کر لی۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے جو چاہا آپ نے فرمایا اسی خطبہ میں آپ نے لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگیں۔
تشریح : بعض روایتوں میں ہے کہ جب یہود یہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عذاب قبر کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا چلو! قبر کا عذاب یہودیوں کو ہوگا مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق لیکن اس یہودیہ کے ذکر پر انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور آپ نے اس کا حق ہونا بتا یا۔ اسی روایت میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو عذاب قبر سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی اور یہ نماز کسوف کے خطبہ کا واقعہ 9 ھ میں ہوا۔ حدیث کے آخر ی جملہ سے ترجمہ باب نکلتا ہے اس یہودن کو شاید اپنی کتابوں سے قبر عذاب معلوم ہو گیا ہوگا۔ ابن حبان میں سے کہ آیت کریمہ میں لفظ مَعِیشَۃً ضَنکاً ( طہ:124 ) اس سے عذاب قبر مرا دہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم کو عذاب قبر کی تحقیق اس وقت ہوئی جب آیت کریمہ حَتّٰی زُرتُمُ المَقَابِرَ ( التکاثر:2 ) نازل ہوئی اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور قتادہ اور ربیع نے آیت سَنُعَذِّبُھُم مَرَّتَینِ ( التوبہ:101 ) کی تفسیر میں کہا کہ ایک عذاب دنیا کا اور دوسرا عذاب قبر کا مراد ہے۔ اب اس حدیث میں جو دوسری رکعت میں دون القیام الاول ہے اس کے مطلب میں اختلاف ہے کہ دوسری رکعت کا قیام اول مراد ہے یا اگلے کل قیام مراد ہیں بعضوں نے کہا چار قیام اور چار رکوع ہیں اور ہر ایک قیام اور رکوع اپنے ما سبق سے کم ہوتا تو ثانی اول سے کم اور ثالث ثانی سے کم اور رابع ثالث سے کم واللہ اعلم۔ یہ جو کسوف کے وقت عذاب قبر سے ڈرایا ا س کی مناسبت یہ ہے کہ جیسے کسوف کے وقت دنیا میں اندھیرا ہو جاتا ہے ایسے ہی گنہگار کی قبر میں جس پر عذاب ہوگا، اندھیرا چھاجائے گا۔ اللہ تعالی پناہ میں رکھے۔ قبر کا عذاب حق ہے، حدیث اور قرآن سے ثابت ہے جو لوگ عذاب قبر سے انکار کر تے ہیں وہ قرآن وحدیث کا انکار کر تے ہیں لہذا ان کو اپنے ایمان کے بارے میں فکرکرنا چاہیے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ جب یہود یہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عذاب قبر کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا چلو! قبر کا عذاب یہودیوں کو ہوگا مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق لیکن اس یہودیہ کے ذکر پر انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور آپ نے اس کا حق ہونا بتا یا۔ اسی روایت میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو عذاب قبر سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی اور یہ نماز کسوف کے خطبہ کا واقعہ 9 ھ میں ہوا۔ حدیث کے آخر ی جملہ سے ترجمہ باب نکلتا ہے اس یہودن کو شاید اپنی کتابوں سے قبر عذاب معلوم ہو گیا ہوگا۔ ابن حبان میں سے کہ آیت کریمہ میں لفظ مَعِیشَۃً ضَنکاً ( طہ:124 ) اس سے عذاب قبر مرا دہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم کو عذاب قبر کی تحقیق اس وقت ہوئی جب آیت کریمہ حَتّٰی زُرتُمُ المَقَابِرَ ( التکاثر:2 ) نازل ہوئی اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور قتادہ اور ربیع نے آیت سَنُعَذِّبُھُم مَرَّتَینِ ( التوبہ:101 ) کی تفسیر میں کہا کہ ایک عذاب دنیا کا اور دوسرا عذاب قبر کا مراد ہے۔ اب اس حدیث میں جو دوسری رکعت میں دون القیام الاول ہے اس کے مطلب میں اختلاف ہے کہ دوسری رکعت کا قیام اول مراد ہے یا اگلے کل قیام مراد ہیں بعضوں نے کہا چار قیام اور چار رکوع ہیں اور ہر ایک قیام اور رکوع اپنے ما سبق سے کم ہوتا تو ثانی اول سے کم اور ثالث ثانی سے کم اور رابع ثالث سے کم واللہ اعلم۔ یہ جو کسوف کے وقت عذاب قبر سے ڈرایا ا س کی مناسبت یہ ہے کہ جیسے کسوف کے وقت دنیا میں اندھیرا ہو جاتا ہے ایسے ہی گنہگار کی قبر میں جس پر عذاب ہوگا، اندھیرا چھاجائے گا۔ اللہ تعالی پناہ میں رکھے۔ قبر کا عذاب حق ہے، حدیث اور قرآن سے ثابت ہے جو لوگ عذاب قبر سے انکار کر تے ہیں وہ قرآن وحدیث کا انکار کر تے ہیں لہذا ان کو اپنے ایمان کے بارے میں فکرکرنا چاہیے۔