کِتَابُ الكُسُوفِ بَابُ الصَّدَقَةِ فِي الكُسُوفِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ مَا فَعَلَ فِي الْأُولَى ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ انْجَلَتْ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا ثُمَّ قَالَ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلبَكَيْتُمْ كَثِيرًا
کتاب: سورج گرہن کے متعلق بیان
باب: سورج گرہن میں صدقہ خیرات کرنا
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیا ن کیا، ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پہلے آپ کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک کھڑے رہے، قیام کے بعد رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے۔ پھر رکوع سے اٹھنے کے بعد دیر تک دوبارہ کھڑے رہے لیکن آپ کے پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر، پھر سجدہ میں گئے اور دیر تک سجدہ کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا، جب آپ فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکاتھا۔ اس کے بعدآپ نے خطبہ دیا اللہ تعالی کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ پھر آپ نے فرمایا اے محمد کی امت کے لوگو! دیکھو اس بات پر اللہ تعالی سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے، اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم! واللہ جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوجائے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
تشریح :
یعنی ہر رکعت میں دو دو رکوع کئے اور دو دو قیام اگر چہ بعض روایتوں میں تین تین رکوع اور بعض میں چار چار اور بعض میں پانچ پانچ ہر رکعت میں وارد ہوئے ہیں۔ مگر دو دو رکوع کی روایتیں صحت میں بڑھ کر ہیں اور اہلحدیث اور شافعی کا اس پر عمل ہے اور حنفیہ کے نزدیک ہر رکعت میں ایک ہی رکوع کرے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ایک رکوع کی روایتیں صحت میں دو دو رکوع کی روایتوں کے برابر نہیں ہیں اب جن روایتوں میں دو رکوع سے زیادہ منقول ہیں تو وہ راویوں کی غلطی ہے یا کسوف کا واقعہ کئی بار ہوا ہوگا۔ بعضے علماءنے یہی اختیار کیا ہے کہ جن جن طرحوں سے کسوف کی نماز منقول ہے ان سب طرحوں سے پڑھنا درست ہے۔
قسطلانی نے پچھلے متکلمین کی طرح غیرت کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ غیرت غصے کے جوش کو کہتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے تغیرات سے پاک ہے۔ اہلحدیث کا یہ طریق نہیں، اہل حدیث اللہ تعالی کی ان سب صفات کو جو قرآن وحدیث میں وارد ہیں اپنے ظاہری معنی پر محمول رکھتے ہیں اور ان میں تاویل اور تحریف نہیں کرتے جب غضب اللہ تعالی صفات کی میں سے ہے تو غیرت بھی اس کی صفات میں سے ہوگی غضب زائد اور کم ہو سکتا ہے اور تغیر اللہ کی ذات اور صفات حقیقیہ میں نہیں ہوتا لیکن صفات افعال میں تو تغیر ضرور ہے مثلاً گناہ کرنے سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے پھر توبہ کرنے سے راضی ہو جاتا ہے اللہ تعالی کلا م کرتا اور کبھی کلام نہیں کرتا کبھی اترتا ہے کبھی چڑھتا ہے غرض صفات افعالیہ کا حدوث اور تغیر اہلحدیث کے نزدیک جائز ہے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
یعنی ہر رکعت میں دو دو رکوع کئے اور دو دو قیام اگر چہ بعض روایتوں میں تین تین رکوع اور بعض میں چار چار اور بعض میں پانچ پانچ ہر رکعت میں وارد ہوئے ہیں۔ مگر دو دو رکوع کی روایتیں صحت میں بڑھ کر ہیں اور اہلحدیث اور شافعی کا اس پر عمل ہے اور حنفیہ کے نزدیک ہر رکعت میں ایک ہی رکوع کرے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ایک رکوع کی روایتیں صحت میں دو دو رکوع کی روایتوں کے برابر نہیں ہیں اب جن روایتوں میں دو رکوع سے زیادہ منقول ہیں تو وہ راویوں کی غلطی ہے یا کسوف کا واقعہ کئی بار ہوا ہوگا۔ بعضے علماءنے یہی اختیار کیا ہے کہ جن جن طرحوں سے کسوف کی نماز منقول ہے ان سب طرحوں سے پڑھنا درست ہے۔
قسطلانی نے پچھلے متکلمین کی طرح غیرت کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ غیرت غصے کے جوش کو کہتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے تغیرات سے پاک ہے۔ اہلحدیث کا یہ طریق نہیں، اہل حدیث اللہ تعالی کی ان سب صفات کو جو قرآن وحدیث میں وارد ہیں اپنے ظاہری معنی پر محمول رکھتے ہیں اور ان میں تاویل اور تحریف نہیں کرتے جب غضب اللہ تعالی صفات کی میں سے ہے تو غیرت بھی اس کی صفات میں سے ہوگی غضب زائد اور کم ہو سکتا ہے اور تغیر اللہ کی ذات اور صفات حقیقیہ میں نہیں ہوتا لیکن صفات افعال میں تو تغیر ضرور ہے مثلاً گناہ کرنے سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے پھر توبہ کرنے سے راضی ہو جاتا ہے اللہ تعالی کلا م کرتا اور کبھی کلام نہیں کرتا کبھی اترتا ہے کبھی چڑھتا ہے غرض صفات افعالیہ کا حدوث اور تغیر اہلحدیث کے نزدیک جائز ہے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )