کِتَابُ الكُسُوفِ بَابُ الصَّلاَةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ فَقَالَ النَّاسُ كَسَفَتْ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ فَصَلُّوا وَادْعُوا اللَّهَ
کتاب: سورج گرہن کے متعلق بیان
باب: سورج گرہن کی نماز کا بیان
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان ابو معاویہ نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، ان سے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن اس دن لگا جس دن ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا بعض لوگ کہنے لگے کہ گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرہن کسی کی موت وحیات سے نہیں لگتا۔ البتہ تم جب اسے دیکھو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو۔
تشریح :
اتفاق سے جب حضرت ابراہیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے گزر گئے تو سورج گرہن لگا۔ بعض لوگوں نے سمجھا کہ ان کی موت سے یہ گرہن لگا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتقاد کا رد فرمایا۔ جاہلیت کے لوگ ستاروں کی تاثیر زمین پر پڑنے کا اعتقاد رکھتے تھے ہماری شریعت نے اسے باطل قرار دیا۔حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ گرہن کی نماز کا وقت وہی ہے جب بھی گرہن لگے خواہ کسی وقت ہو، یہی مذہب راجح ہے۔ یہاں گرہن کو اللہ کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ مسند امام احمد اور نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں اتنا زیادہ منقول ہے کہ اللہ عزوجل جب کسی چیز پر تجلی کرتا ہے تو وہ عاجزی سے اطاعت کرتی ہے۔ تجلی کا اصل مفہوم ومطلوب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ یہ خیال کہ گرہن ہمیشہ چاند یا زمین کے حائل ہونے سے ہوتا ہے یہ علماءہیئت کا خیال ہے اور یہ علم یقینی نہیں ہے۔ حکیم دیو جانس کلبی کا یہ حال تھا کہ جب اس کے سامنے کوئی علم ہیئت کا مسئلہ بیان کرتا تو وہ کہتا کہ کیا آپ آسمان سے اترے ہیں۔ بہر حال بقول حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم علماءہیئت جو کہتے ہیں کہ زمین یا چاند حائل ہوجانے سے گرہن ہوتا ہے، یہ حدیث کے خلاف نہیں ہے پھر بھی آیۃ من آیات اللہ کا اطلاق اس پر صحیح ہے۔ روایت میں جس واقعہ کاذکر ہے وہ 10ھ میں بماہ ربیع الاول یا ماہ رمضان میں ہوا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
صاحب تسہیل القاری لکھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا جیسے کفار کا اعتقاد تھا تو گرہن سورج اور چاند کا اپنے مقررہ وقت پر نہ ہوتا بلکہ جب دنیا میں کسی بڑے کی موت کا حادثہ پیش آتا یا کوئی بڑا آدمی پیدا ہوتا، گرہن لگا کرتا، حالانکہ اب کا ملین علم ہیئت نے سورج اور چاند کے گرہن کے اوقات ایسے دریافت کئے ہیں کہ ایک منٹ ان سے آگے پیچھے گرہن نہیں ہوتا اور سال بھر کی بیشتر جنتریوں میں لکھ دیتے ہیں کہ اس سال سورج گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت ہوگا اور چاند گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت میںاور یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ سورج یا چاند کی ٹکی گرہن سے کل چھپ جائے گی یا ان کا اتنا حصہ۔ اور یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ کس ملک میں کس قدر گرہن لگے گا۔
بہر حال یہ دونوں اللہ کی قدرت کی اہم نشانیاں ہیں اور قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا ہے وَمَانُرسِلُ بِالآیَاتِ اِلاَّ تَخوِیفًا ( بنی اسرائیل: 59 ) کہ ہم اپنی قدرت کی کتنی ہی نشانیاں لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں جو اہل ایمان ہیں وہ ان سے اللہ کے وجود برحق پر دلیل لے کر اپنا ایمان مضبوط کر تے ہیںاور جو الحادو دہریت کے شکار ہیں وہ ان کو مادی عینک سے دیکھ کر اپنے الحاد ودہریت میں ترقی کرتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ وفی کل شئی لہ ایۃ تدل علی انہ واحد یعنی کائنات کی ہر چیز میں اس امر کی نشانی موجود ہے کہ اللہ پاک اکیلا ہے علامہ شوکانی فرماتے ہیں کہ وفی ھذا الحدیث ابطال ما کان اھل الجاھلیۃ یعتقدونہ من تاثیر الکواکب قال الخطابی کانوا فی الجاھلیۃ یعتقدون ان الکسوف یوجب حدوث تغیر الارض من موت اوضرر فاعلم النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ اعتقاد باطل وان الشمس والقمر خلقان مسخران للہ تعالی لیس لھما سلطان فی غیرھما ولا قدرۃ علی الدفع عن انفسھما ( نیل الاوطار ) یعنی عہد جاہلیت والے ستاروں کی تاثیر کا جو اعتقاد رکھتے تھے اس حدیث میں اس کا ابطال ہے۔ خطابی نے کہا کہ جاہلیت کے لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ گرہن سے زمین پر موت یا اورکسی نقصان کا حادثہ ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہ اعتقاد باطل ہے اور سورج اور چاند اللہ پاک کی دو مخلوق جو اللہ پاک ہی کے تابع ہیں ان کو اپنے غیر میں کوئی اختیار نہیں اور نہ وہ اپنے ہی نفسوں سے کسی کو دفع کر سکتے ہیں۔
آج کل بھی عوام الناس جاہلیت جیسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں، اہل اسلام کو ایسے غلط خیال سے بالکل دو رہنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ ستاروں میں کوئی طاقت قدرت نہیں ہے۔ ہر قسم کی قدرت صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے۔ واللہ اعلم۔
اتفاق سے جب حضرت ابراہیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے گزر گئے تو سورج گرہن لگا۔ بعض لوگوں نے سمجھا کہ ان کی موت سے یہ گرہن لگا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتقاد کا رد فرمایا۔ جاہلیت کے لوگ ستاروں کی تاثیر زمین پر پڑنے کا اعتقاد رکھتے تھے ہماری شریعت نے اسے باطل قرار دیا۔حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ گرہن کی نماز کا وقت وہی ہے جب بھی گرہن لگے خواہ کسی وقت ہو، یہی مذہب راجح ہے۔ یہاں گرہن کو اللہ کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ مسند امام احمد اور نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں اتنا زیادہ منقول ہے کہ اللہ عزوجل جب کسی چیز پر تجلی کرتا ہے تو وہ عاجزی سے اطاعت کرتی ہے۔ تجلی کا اصل مفہوم ومطلوب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ یہ خیال کہ گرہن ہمیشہ چاند یا زمین کے حائل ہونے سے ہوتا ہے یہ علماءہیئت کا خیال ہے اور یہ علم یقینی نہیں ہے۔ حکیم دیو جانس کلبی کا یہ حال تھا کہ جب اس کے سامنے کوئی علم ہیئت کا مسئلہ بیان کرتا تو وہ کہتا کہ کیا آپ آسمان سے اترے ہیں۔ بہر حال بقول حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم علماءہیئت جو کہتے ہیں کہ زمین یا چاند حائل ہوجانے سے گرہن ہوتا ہے، یہ حدیث کے خلاف نہیں ہے پھر بھی آیۃ من آیات اللہ کا اطلاق اس پر صحیح ہے۔ روایت میں جس واقعہ کاذکر ہے وہ 10ھ میں بماہ ربیع الاول یا ماہ رمضان میں ہوا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
صاحب تسہیل القاری لکھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا جیسے کفار کا اعتقاد تھا تو گرہن سورج اور چاند کا اپنے مقررہ وقت پر نہ ہوتا بلکہ جب دنیا میں کسی بڑے کی موت کا حادثہ پیش آتا یا کوئی بڑا آدمی پیدا ہوتا، گرہن لگا کرتا، حالانکہ اب کا ملین علم ہیئت نے سورج اور چاند کے گرہن کے اوقات ایسے دریافت کئے ہیں کہ ایک منٹ ان سے آگے پیچھے گرہن نہیں ہوتا اور سال بھر کی بیشتر جنتریوں میں لکھ دیتے ہیں کہ اس سال سورج گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت ہوگا اور چاند گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت میںاور یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ سورج یا چاند کی ٹکی گرہن سے کل چھپ جائے گی یا ان کا اتنا حصہ۔ اور یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ کس ملک میں کس قدر گرہن لگے گا۔
بہر حال یہ دونوں اللہ کی قدرت کی اہم نشانیاں ہیں اور قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا ہے وَمَانُرسِلُ بِالآیَاتِ اِلاَّ تَخوِیفًا ( بنی اسرائیل: 59 ) کہ ہم اپنی قدرت کی کتنی ہی نشانیاں لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں جو اہل ایمان ہیں وہ ان سے اللہ کے وجود برحق پر دلیل لے کر اپنا ایمان مضبوط کر تے ہیںاور جو الحادو دہریت کے شکار ہیں وہ ان کو مادی عینک سے دیکھ کر اپنے الحاد ودہریت میں ترقی کرتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ وفی کل شئی لہ ایۃ تدل علی انہ واحد یعنی کائنات کی ہر چیز میں اس امر کی نشانی موجود ہے کہ اللہ پاک اکیلا ہے علامہ شوکانی فرماتے ہیں کہ وفی ھذا الحدیث ابطال ما کان اھل الجاھلیۃ یعتقدونہ من تاثیر الکواکب قال الخطابی کانوا فی الجاھلیۃ یعتقدون ان الکسوف یوجب حدوث تغیر الارض من موت اوضرر فاعلم النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ اعتقاد باطل وان الشمس والقمر خلقان مسخران للہ تعالی لیس لھما سلطان فی غیرھما ولا قدرۃ علی الدفع عن انفسھما ( نیل الاوطار ) یعنی عہد جاہلیت والے ستاروں کی تاثیر کا جو اعتقاد رکھتے تھے اس حدیث میں اس کا ابطال ہے۔ خطابی نے کہا کہ جاہلیت کے لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ گرہن سے زمین پر موت یا اورکسی نقصان کا حادثہ ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہ اعتقاد باطل ہے اور سورج اور چاند اللہ پاک کی دو مخلوق جو اللہ پاک ہی کے تابع ہیں ان کو اپنے غیر میں کوئی اختیار نہیں اور نہ وہ اپنے ہی نفسوں سے کسی کو دفع کر سکتے ہیں۔
آج کل بھی عوام الناس جاہلیت جیسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں، اہل اسلام کو ایسے غلط خیال سے بالکل دو رہنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ ستاروں میں کوئی طاقت قدرت نہیں ہے۔ ہر قسم کی قدرت صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے۔ واللہ اعلم۔