‌صحيح البخاري - حدیث 1031

کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ بَابُ رَفْعِ الإِمَامِ يَدَهُ فِي الِاسْتِسْقَاءِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ دُعَائِهِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ وَإِنَّهُ يَرْفَعُ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ إِبْطَيْهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1031

کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان باب: امام کا استسقاء میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان اور محمد بن ابراہیم بن عدی بن عروبہ نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعائے استسقاء کے سوا اور کسی دعا کے لیے ہاتھ ( زیادہ ) نہیں اٹھا تے تھے اور استسقاء میں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آجاتی۔
تشریح : ابوداؤد کی مرسل روایتوں میں یہی حدیث اسی طرح ہے کہ “استسقاءکے سوا پوری طرح آپ کسی دعا میں بھی ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کی اس روایت میں ہاتھ اٹھانے کے انکار سے مراد یہ ہے کہ بمبالغہ ہاتھ نہیں اٹھاتے اس روایت سے یہ کسی بھی طرح ثابت نہیں ہو سکا کہ آپ دعاؤں میں ہاتھ ہی نہیں اٹھاتے تھے۔ خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الدعوات میں اس کے لیے ایک باب قائم کیا ہے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ استسقاءکی دعا میں آپ نے ہتھیلی کی پشت آسمان کی طرف کی اور شافعیہ نے کہا کہ قحط وغیرہ بلیات کے رفع کرنے کے لیے اس طرح دعا کرنا سنت ہے ( قسطلانی ) علامہ نووی فرماتے ہیں: ھذا الحدیث یوھم ظاھرہ انہ لم یرفع صص الا فی الاستسقاءولیس الامر کذالک بل قد ثبت رفع یدیہ صص فی مواطن غیر الاستسقاءوھی اکثر من ان تحصر وقد جمعت منھا نحوا من ثلاثین حدیثا من الصحیحین او احدھما وذکرتھا فی اواخر باب صفۃ الصلوۃ من شرح المھذب ویتاول ھذا الحدیث علی انہ لم یرفع الرافع البلیغ بحیث تری بیاض ابطیہ الا فی الاستسقاءواما المراد لم ارہ رفع وقد رای غیرہ رفع فیقدم المثبتون فی مواضع کثیرۃ وجماعات علی واحد یحضر ذلک ولا بد من تاویلہ کما ذکرناہ واللہ اعلم۔ ( نووی، ج:1ص293 ) خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں اٹھانے سے مبالغہ کے ساتھ ہاتھ اٹھانا مراد ہے استسقاءکے علاوہ دیگر مقامات پر بھی ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ثابت ہے۔ میں نے اس بارے میں تیس احادیث جمع کی ہیں دیگر آنکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے صرف اپنی روایت کا ذکر کیا ہے جبکہ ان کے علاوہ بہت سے صحابہ سے یہ ثابت ہے ابوداؤد کی مرسل روایتوں میں یہی حدیث اسی طرح ہے کہ “استسقاءکے سوا پوری طرح آپ کسی دعا میں بھی ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کی اس روایت میں ہاتھ اٹھانے کے انکار سے مراد یہ ہے کہ بمبالغہ ہاتھ نہیں اٹھاتے اس روایت سے یہ کسی بھی طرح ثابت نہیں ہو سکا کہ آپ دعاؤں میں ہاتھ ہی نہیں اٹھاتے تھے۔ خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الدعوات میں اس کے لیے ایک باب قائم کیا ہے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ استسقاءکی دعا میں آپ نے ہتھیلی کی پشت آسمان کی طرف کی اور شافعیہ نے کہا کہ قحط وغیرہ بلیات کے رفع کرنے کے لیے اس طرح دعا کرنا سنت ہے ( قسطلانی ) علامہ نووی فرماتے ہیں: ھذا الحدیث یوھم ظاھرہ انہ لم یرفع صص الا فی الاستسقاءولیس الامر کذالک بل قد ثبت رفع یدیہ صص فی مواطن غیر الاستسقاءوھی اکثر من ان تحصر وقد جمعت منھا نحوا من ثلاثین حدیثا من الصحیحین او احدھما وذکرتھا فی اواخر باب صفۃ الصلوۃ من شرح المھذب ویتاول ھذا الحدیث علی انہ لم یرفع الرافع البلیغ بحیث تری بیاض ابطیہ الا فی الاستسقاءواما المراد لم ارہ رفع وقد رای غیرہ رفع فیقدم المثبتون فی مواضع کثیرۃ وجماعات علی واحد یحضر ذلک ولا بد من تاویلہ کما ذکرناہ واللہ اعلم۔ ( نووی، ج:1ص293 ) خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں اٹھانے سے مبالغہ کے ساتھ ہاتھ اٹھانا مراد ہے استسقاءکے علاوہ دیگر مقامات پر بھی ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ثابت ہے۔ میں نے اس بارے میں تیس احادیث جمع کی ہیں دیگر آنکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے صرف اپنی روایت کا ذکر کیا ہے جبکہ ان کے علاوہ بہت سے صحابہ سے یہ ثابت ہے