کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ بَابُ إِذَا اسْتَشْفَعَ المُشْرِكُونَ بِالْمُسْلِمِينَ عِنْدَ القَحْطِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ وَالْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ أَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ إِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنْ الْإِسْلَامِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَكَ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ فَقَرَأَ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ ثُمَّ عَادُوا إِلَى كُفْرِهِمْ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَزَادَ أَسْبَاطٌ عَنْ مَنْصُورٍ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسُقُوا الْغَيْثَ فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ سَبْعًا وَشَكَا النَّاسُ كَثْرَةَ الْمَطَرِ قَالَ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَانْحَدَرَتْ السَّحَابَةُ عَنْ رَأْسِهِ فَسُقُوا النَّاسُ حَوْلَهُمْ
کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
باب: جب مشرکین دعاءے استسقاء کی درخواست کریں تو
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحی ٰ نے، ان سے مسروق نے، آپ نے کہا کہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ قریش کا اسلام سے اعراض بڑھتا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی۔ اس بددعا کے نتیجے میں ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے۔ آخر ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے۔ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ( ترجمہ ) اس دن کا انتظار کر جب آسمان پر صاف کھلا ہوا دھواں نمودار ہوگا الآیہ ( خیر آپ نے دعا کی بارش ہوئی قحط جاتا رہا ) لیکن وہ پھر کفر کر نے لگے اس پر اللہ پاک کا یہ فرمان نازل ہوا ( ترجمہ ) جس دن ہم انہیں سختی کے ساتھ پکڑ کریں گے اور یہ پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی اور اسباط بن محمد نے منصور سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے استسقاء کی ( مدینہ میں ) جس کے نتیجہ میں خوب بارش ہوئی کہ سات دن تک وہ برابر جاری رہی۔ آخر لوگوں نے بارش کی زیادتی کی شکایت کی تو حضور اکرم نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے اطراف وجوانب میں بارش برسا، مدینہ میں بارش کا سلسلہ ختم کر۔ چنانچہ بادل آسمان سے چھٹ گیا اور مدینہ کے ارد گرد خوب بارش ہوئی۔
تشریح :
شروع میں جو واقعہ بیان ہوا، اس کاتعلق مکہ سے ہے۔ کفار کی سرکشی اور نافرمانی سے عاجز آکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بد دعا کی اور اس کے نتیجہ میں سخت قحط پڑا تو ابو سفیان جو ابھی تک کافر تھے، حاضر خدمت ہوئے اور کہا کہ آپ صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں۔ لیکن خود اپنی قوم کے حق میں اتنی سخت بددعا کردی۔ اب کم از کم آپ کو دعا کرنی چاہیے کہ قوم کی یہ پریشانی دور ہو۔حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے کہ آپ نے ان کے حق میں دوبارہ دعا فرمائی لیکن حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دعا کی تھی جبھی تو قحط کا سلسلہ ختم ہوا لیکن قوم کی سرکشی برابرجاری رہی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی یَومَ نَبطِشُ البَطشَۃَ الکُبرٰی ( الدخان:16 ) یہ بطش کبریٰ بدر کی لڑائی میں وقوع پزیر ہوئی۔جب قریش کے بہترین افراد لڑائی میں کام آئے اور انہیں بری طرح پسپا ہونا پڑا۔دمیاطی نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے بد دعا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کی تھی جب کفار نے حرم میں سجدہ کی حالت میں آپ پر اوجھڑی ڈال دی تھی اور پھر خوب اس “کارنامے” پر خوش ہوئے اور قہقہے لگائے تھے۔ قوم کی سرکشی اور فساد اس درجہ بڑھ گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے حلیم الطبع اور بردبار اور صابر نبی کی زبان سے بھی بد دعا نکل گئی۔ جب ایمان لانے کی کسی درجہ میں بھی امید نہیں ہوتی بلکہ قوم کا وجود دنیا میں صرف شر وفساد کا باعث بن کر رہ جاتا ہے تو اس شرکو ختم کرنے کی آخری تدبیر بد دعا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے پھر بھی کبھی بھی ایسی بد دعا نہیں نکلی جو ساری قوم کی تباہی کا باعث ہوتی کیونکہ عرب کے اکثر افراد کا ایمان مقدر تھا۔ اس روایت میں اسباط کے واسطہ سے جو حصہ بیان ہوا ہے اس کا تعلق مکہ سے نہیں بلکہ مدینہ سے ہے۔
اسباط نے منصور کے واسطے سے جو حدیث نقل کی ہے اس کی تفصیل اس سے پہلے متعدد ابواب میں گزر چکی ہے۔مصنف رحمہ اللہ نے دو حدیثوں کو ملا کر ایک جگہ بیان کر دیا، یہ خلط کسی راوی کا نہیں بلکہ جیسا کہ دمیاطی نے کہا ہے خود مصنف رحمہ اللہ کا ہے ( تفہیم البخاری )
پیغمبروں کی شخصیت بہت ہی ارفع واعلی ہوتی ہے، وہ ہر مشکل کو ہر دکھ کو ہنس کر برداشت کر لیتے ہیں مگر جب قو م کی سر کشی حد سے گزر نے لگے اور وہ ان کی ہدایت سے مایوس ہو جائیں تو وہ اپنا آخری ہتھیار بد دعا بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے مواقع پر بہت سے نبیوں کی دعائیں منقول ہیں۔ہمارے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مایوس کن مواقع پر بد دعا کی ہے جن کے نتائج بھی فوراً ہی ظاہر ہوئے ان ہی میں سے ایک یہ واقعہ مذکورہ بھی ہے ( واللہ اعلم )
شروع میں جو واقعہ بیان ہوا، اس کاتعلق مکہ سے ہے۔ کفار کی سرکشی اور نافرمانی سے عاجز آکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بد دعا کی اور اس کے نتیجہ میں سخت قحط پڑا تو ابو سفیان جو ابھی تک کافر تھے، حاضر خدمت ہوئے اور کہا کہ آپ صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں۔ لیکن خود اپنی قوم کے حق میں اتنی سخت بددعا کردی۔ اب کم از کم آپ کو دعا کرنی چاہیے کہ قوم کی یہ پریشانی دور ہو۔حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے کہ آپ نے ان کے حق میں دوبارہ دعا فرمائی لیکن حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دعا کی تھی جبھی تو قحط کا سلسلہ ختم ہوا لیکن قوم کی سرکشی برابرجاری رہی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی یَومَ نَبطِشُ البَطشَۃَ الکُبرٰی ( الدخان:16 ) یہ بطش کبریٰ بدر کی لڑائی میں وقوع پزیر ہوئی۔جب قریش کے بہترین افراد لڑائی میں کام آئے اور انہیں بری طرح پسپا ہونا پڑا۔دمیاطی نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے بد دعا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کی تھی جب کفار نے حرم میں سجدہ کی حالت میں آپ پر اوجھڑی ڈال دی تھی اور پھر خوب اس “کارنامے” پر خوش ہوئے اور قہقہے لگائے تھے۔ قوم کی سرکشی اور فساد اس درجہ بڑھ گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے حلیم الطبع اور بردبار اور صابر نبی کی زبان سے بھی بد دعا نکل گئی۔ جب ایمان لانے کی کسی درجہ میں بھی امید نہیں ہوتی بلکہ قوم کا وجود دنیا میں صرف شر وفساد کا باعث بن کر رہ جاتا ہے تو اس شرکو ختم کرنے کی آخری تدبیر بد دعا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے پھر بھی کبھی بھی ایسی بد دعا نہیں نکلی جو ساری قوم کی تباہی کا باعث ہوتی کیونکہ عرب کے اکثر افراد کا ایمان مقدر تھا۔ اس روایت میں اسباط کے واسطہ سے جو حصہ بیان ہوا ہے اس کا تعلق مکہ سے نہیں بلکہ مدینہ سے ہے۔
اسباط نے منصور کے واسطے سے جو حدیث نقل کی ہے اس کی تفصیل اس سے پہلے متعدد ابواب میں گزر چکی ہے۔مصنف رحمہ اللہ نے دو حدیثوں کو ملا کر ایک جگہ بیان کر دیا، یہ خلط کسی راوی کا نہیں بلکہ جیسا کہ دمیاطی نے کہا ہے خود مصنف رحمہ اللہ کا ہے ( تفہیم البخاری )
پیغمبروں کی شخصیت بہت ہی ارفع واعلی ہوتی ہے، وہ ہر مشکل کو ہر دکھ کو ہنس کر برداشت کر لیتے ہیں مگر جب قو م کی سر کشی حد سے گزر نے لگے اور وہ ان کی ہدایت سے مایوس ہو جائیں تو وہ اپنا آخری ہتھیار بد دعا بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے مواقع پر بہت سے نبیوں کی دعائیں منقول ہیں۔ہمارے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مایوس کن مواقع پر بد دعا کی ہے جن کے نتائج بھی فوراً ہی ظاہر ہوئے ان ہی میں سے ایک یہ واقعہ مذکورہ بھی ہے ( واللہ اعلم )