کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ بَابُ سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الِاسْتِسْقَاءَ إِذَا قَحَطُوا صحيح حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ
کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
باب: قحط میں امام سے پانی کی دعا کا کہنا
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبد اللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبد اللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبد اللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کر تے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔
تشریح :
خیر القرون میں دعا کا یہی طریقہ تھا اور سلف کا عمل بھی اسی پر رہا کہ مردوں کو وسیلہ بنا کر وہ دعا نہیں کرتے تھے کہ انہیں تو عام حالات میں دعا کا شعور بھی نہیں ہوتا بلکہ کسی زندہ مقرب بارگاہ ایزدی کو آگے بڑھا دیتے تھے۔ آگے بڑھ کر وہ دعا کرتے جاتے اور لوگ ان کی دعا پر آمین کہتے جاتے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے اس طرح توسل کیاگیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر موجود یا مردوں کو وسیلہ بنانے کی کوئی صورت حضرت عمر کے سامنے نہیں تھی۔ سلف کا یہی معمول تھا۔ اور حضرت عمر کا طرز عمل اس مسئلہ میں بہت زیادہ واضح ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عباس کی دعا بھی نقل کی ہے آپ نے استسقاءکی دعا اس طرح کی تھی“اے اللہ! آفت اور مصیبت بغیر گناہ کے نازل نہیں ہوتی اور توبہ کے بغیر نہیں چھٹتی۔ آپ کے نبی کے یہاں میری قدر ومنزلت تھی اس لیے قوم مجھے آگے بڑھا کر تیری بارگاہ میں حاضر ہوئی ہے۔ یہ ہمارے ہاتھ ہیں جن سے ہم نے گناہ کئے تھے اور توبہ کے لیے ہماری پیشانیاں سجدہ ریز ہیں، باران رحمت سے سیراب کیجئے۔”دوسری روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا معاملہ تھا جیسے بیٹے کاباپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ پس لوگو!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءکرو اور خداکی بارگاہ میں ان کے چچا کو وسیلہ بناؤ۔ چنانچہ دعاءاستسقاءکے بعد اس زور کی بارش ہوئی کہ تاحد نظرپانی ہی پانی تھا۔ ( ملخص )
خیر القرون میں دعا کا یہی طریقہ تھا اور سلف کا عمل بھی اسی پر رہا کہ مردوں کو وسیلہ بنا کر وہ دعا نہیں کرتے تھے کہ انہیں تو عام حالات میں دعا کا شعور بھی نہیں ہوتا بلکہ کسی زندہ مقرب بارگاہ ایزدی کو آگے بڑھا دیتے تھے۔ آگے بڑھ کر وہ دعا کرتے جاتے اور لوگ ان کی دعا پر آمین کہتے جاتے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے اس طرح توسل کیاگیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر موجود یا مردوں کو وسیلہ بنانے کی کوئی صورت حضرت عمر کے سامنے نہیں تھی۔ سلف کا یہی معمول تھا۔ اور حضرت عمر کا طرز عمل اس مسئلہ میں بہت زیادہ واضح ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عباس کی دعا بھی نقل کی ہے آپ نے استسقاءکی دعا اس طرح کی تھی“اے اللہ! آفت اور مصیبت بغیر گناہ کے نازل نہیں ہوتی اور توبہ کے بغیر نہیں چھٹتی۔ آپ کے نبی کے یہاں میری قدر ومنزلت تھی اس لیے قوم مجھے آگے بڑھا کر تیری بارگاہ میں حاضر ہوئی ہے۔ یہ ہمارے ہاتھ ہیں جن سے ہم نے گناہ کئے تھے اور توبہ کے لیے ہماری پیشانیاں سجدہ ریز ہیں، باران رحمت سے سیراب کیجئے۔”دوسری روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا معاملہ تھا جیسے بیٹے کاباپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ پس لوگو!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءکرو اور خداکی بارگاہ میں ان کے چچا کو وسیلہ بناؤ۔ چنانچہ دعاءاستسقاءکے بعد اس زور کی بارش ہوئی کہ تاحد نظرپانی ہی پانی تھا۔ ( ملخص )