كِتَابُ بَدْءِ الوَحْيِ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى المِنْبَرِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»
کتاب: وحی کے بیان میں
باب: (وحی کی ابتداء میں؟)
ہم کو حمیدی نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم کو سفیان نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ مجھے یہ حدیث محمد بن ابراہیم تیمی سے حاصل ہوئی۔ انھوں نے اس حدیث کو علقمہ بن وقاص لیثی سے سنا، ان کا بیان ہے کہ میں نے مسجد نبوی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زبان سے سنا، وہ فرما رہے تھے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
تشریح :
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کے افتتاح کے لیے یا تو صرف بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی کو کافی سمجھا کہ اس میں بھی اللہ کی حمد کامل طور پر موجود ہے یا آپ نے حمد کا تلفظ زبان سے ادا فرمالیا کہ اس کے لیے لکھنا ہی ضروری نہیں۔ یا پھر آپ نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کو ملحوظِ خاطر رکھا ہو کہ تحریرات نبوی کی ابتداصرف بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی سے ہوا کرتی تھی جیسا کہ کتب تواریخ وسیر سے ظاہر ہے۔ حضرت الامام قدس سرہ نے پہلے “ وحی ” کا ذکر مناسب سمجھا اس لیے کہ قرآن وسنت کی اولین بنیاد “ وحی ” ہے۔ اسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت موقوف ہے۔ وحی کی تعریف علامہ قسطلانی شارح بخاری کے لفظوں میں یہ ہے ( والوحی الاعلام فی خفاءوفی اصطلاح الشرع اعلام اللہ تعالیٰ انبیاءہ الشی امابکتاب او برسالۃ ملک او منام اوالہام ) ( ارشاد الساری 48/1 ) یعنی وحی لغت میں اس کو کہتے ہیں کہ مخفی طور پر کوئی چیز علم میں آجائے اور شرعاً وحی یہ ہے کہ اللہ پاک اپنے نبیوں رسولوں کو براہِ راست کسی مخفی چیز پر آگاہ فرمادے۔ اس کی بھی مختلف صورتیں ہیں، یا تو ان پر کوئی کتاب نازل فرمائے یا کسی فرشتے کو بھیج کر اس کے ذریعہ سے خبردے یاخواب میں آگاہ فرمادے، یادل میں ڈال دے۔ وحی محمدی کی صداقت کے لیے حضرت امام نے آیت کریمہ انآاوحينآ اليک کما اوحينا الي نوح ( النساء: 163 ) درج فرماکر بہت سے لطیف اشارات فرمائے ہیں، جن کی تفصیل طوالت کا باعث ہے۔ مختصریہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ عالیہ حضرت آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ،عیسیٰ وجملہ انبیاء ورسل علیہم السلام سے مربوط ہے اور اس سلسلے کی آخری کڑی حضرت سیدنامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہیں۔ اس طرح آپ کی تصدیق جملہ انبیاء ورسل علیہم السلام کی تصدیق ہے اور آپ کی تکذیب جملہ انبیاء ورسل علیہم السلام کی تکذیب ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ( ومناسبۃ الآیۃ للترجمۃ واضح من جہۃ ان صفۃ الوحی الٰی نبینا صلی اللہ علیہ وسلم توافق صفۃ الوحی الٰی من تقدمہ من النبیین ) ( فتح الباری9/1 ) یعنی باب بدءالوحی کے انعقاد اور آیت ( انااوحینا الیک ) الآیۃ میں مناسبت اس طور پر واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول قطعی طور پر اسی طرح ہے جس طرح آپ سے قبل تمام نبیوں رسولوں پر وحی کا نزول ہوتا رہا ہے۔
ذکر وحی کے بعد حضرت الامام نے الحدیث انما الاعمال بالنیات کونقل فرمایا، اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ظاہر کرنا بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخزانہ وحی سے جو کچھ بھی دولت نصیب ہوئی یہ سب آپ کی اس پاک نیت کا ثمرہ ہے جو آپ کو ابتداءعمر ہی سے حاصل تھی۔ آپ کا بچپن، جوانی، الغرض قبل نبوت کا سارا عرصہ نہایت پاکیزگی کے ساتھ گذرا۔ آخر میں آپ نے دنیا سے قطعی علیحدگی اختیار فرماکر غار حرا میں خلوت فرمائی۔ آخر آپ کی پاک نیت کا ثمرہ آپ کو حاصل ہوا اور خلعت رسالت سے آپ کونوازاگیا۔ روایت حدیث کے سلسلہ عالیہ میں حضرت الامام قدس سرہ نے امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی سند کا افتتاح فرمایا۔ حضرت امام حمیدی رحمہ اللہ علم وفضل، حسب ونسب ہر لحاظ سے اس کے اہل تھے اس لیے کہ ان کی علمی وعملی جلالت شان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ میں سے ہیں، حسب ونسب کے لحاظ سے قریشی ہیں۔ ان کا سلسلہ نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحضرت خدیجۃ الکبریٰ ر ضی اللہ عنہاسے جاملتا ہے ان کی کنیت ابوبکر، نام عبداللہ بن زبیربن عیسیٰ ہے، ان کے اجداد میں کوئی بزرگ حمیدبن اسامہ نامی گذرے ہیں، ان کی نسبت سے یہ حمیدی مشہورہوئے۔ اس حدیث کوامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حمیدی سے جو کہ مکی ہیں، لاکر یہ اشارہ فرما رہے ہیں کہ وحی کی ابتدا مکہ سے ہوئی تھی۔
حدیث ( انماالاعمال بالنیات ) کی بابت علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وھذاالحدیث احد الاحادیث التی علیھا مدار الاسلام و قال الشافعی واحمد انہ یدخل فیہ ثلث العلم ” ( ارشاد الساری 56,57/1 ) یعنی یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا دارومدارہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ جیسے اکابرامت نے صرف اس ایک حدیث کو علم دین کا تہائی یانصف حصہ قرار دیا ہے۔ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور بھی تقریباً بیس اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمایا ہے۔ بعض علماءنے اسے حدیث متواتر بھی قرار دیا ہے۔اس کے راویوں میں سعدبن ابی وقاص، علی بن ابی طالب، ابوسعیدخدری، عبداللہ بن مسعود، انس، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ، جابربن عبداللہ، معاویہ بن ابی سفیان، عبادۃ بن صامت عتبہ بن عبدالسلمی، ہلال بن سوید، عقبہ بن عامر، ابوذر عقبہ بن المنذر عقبہ بن مسلم اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی نقل کئے گئے ہیں۔ ( قسطلانی رحمہ اللہ )
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع صحیح کو اس حدیث سے اس لیے شروع فرمایا کہ ہر نیک کام کی تکمیل کے لیے خلوص نیت ضروری ہے۔ احادیث نبوی کا جمع کرنا، ان کا لکھنا، ان کا پڑھنا، یہ بھی ایک نیک ترین عمل ہے، پس اس فن شریف کے حاصل کرنے والوں کے لیے آداب شرعیہ میں سے یہ ضروری ہے کہ اس علم شریف کو خالص دل کے ساتھ محض رضائے الٰہی ومعلومات سنن رسالت پناہی کے لیے حاصل کریں، کوئی غرض فاسد ہرگز درمیان میں نہ ہو۔ ورنہ یہ نیک عمل بھی اجروثواب کے لحاظ سے ان کے لیے مفیدعمل نہ ہوسکے گا۔ جیسا کہ اس حدیث کے شان ورود سے ظاہر ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت ام قیس نامی کو نکاح کا پیغام دیا تھا، اس نے جواب میں خبردی کہ آپ ہجرت کرکے مدینہ آجائیں توشادی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ وہ شخص اسی غرض سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچا اور اس کی شادی ہوگئی۔ دوسرے صحابہ کرام اس کو مہاجر ام قیس کہا کرتے تھے۔ اسی واقعہ سے متاثر ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔
حضرت امام قسطلانی فرماتے ہیں۔ ( واخرجہ المولف فی الایمان والعتق والہجرۃ والنکاح والایمان والنذور وترک الحیل ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجۃ واحمد والدارقطنی وابن حبان والبیھقی ) یعنی امام بخاری رحمہ اللہ اپنی جامع صحیح میں اس حدیث کو یہاں کے علاوہ کتاب الایمان میں بھی لائے ہیں اور وہاں آپ نے یہ باب منعقد فرمایا ہے ( باب ماجاءان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ ولکل امرءما نوی ) یہاں آپ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے کہ وضو، زکوۃ، حج روزہ جملہ اعمال خیر کا اجراسی صورت میں حاصل ہوگا کہ خلوص نیت سے بغرض طلب ثواب ان کو کیاجائے۔ یہاں آپ نے استشہاد مزید کے لیے قرآنی آیت کریمہ ( قل کل یعمل علی شاکلتہ ) کونقل کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ شاکلتہ سے نیت ہی مراد ہے۔ مثلاً کوئی شخص اپنے اہل وعیال پر بہ نیت ثواب خرچ کرتا ہے تویقینا اسے ثواب حاصل ہوگا۔ تیسرے امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب العتق میں لائے ہیں۔ چوتھے باب الہجرۃ میں پانچویں کتاب النکاح میں چھٹے نذورکے بیان میں۔ ساتویں کتاب الحیل میں۔ ہرجگہ اس حدیث کی نقل سے غرض یہ ہے کہ صحت اعمال وثواب اعمال سب نیت ہی پر موقوف ہیں اور حدیث ہذا کا مفہوم بطور عموم ہر دوصورتوں کوشامل ہے۔ اس حدیث کے ذیل میں فقہاءشوافع صرف صحت اعمال کی تخصیص کرتے ہیں اور فقہاءاحناف صرف ثواب اعمال کی۔ حضرت مولاناانورشاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہردو کی تغلیط فرماتے ہوئے امام المحدثین بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہی کے موقف کی تائید کی ہے کہ یہ حدیث ہر دوصورتوں کو شامل ہے۔ ( دیکھو انوارالباری 16,17/1 )
نیت سے دل کا ارادہ مراد ہے۔ جوہرفعل اختیاری سے پہلے دل میں پیدا ہوتا ہے، نماز، روزہ، وغیرہ کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا غلط ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگراکابر امت نے تصریح کی ہے کہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کا ثبوت نہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے نہ صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے، لہٰذا زبان سے نیت کے الفاظ کا ادا کرنا محض ایجادبندہ ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔
آج کل ایک جماعت منکرین حدیث کی بھی پیدا ہوگئی ہے جو اپنی ہفوات کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی بھی استعمال کیا کرتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ روایت حدیث کے خلاف تھے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کو حضرت عمررضی اللہ عنہ کی روایت سے شروع فرمایا ہے۔ جس سے روزروشن کی طرح واضح ہو گیا کہ منکرین حدیث کا حضرت عمررضی اللہ عنہ پر یہ الزام بالکل غلط ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ خود احادیث نبوی کو روایت فرمایا کرتے تھے۔ ہاں صحت کے لیے آپ کی طرف سے احتیاط ضرور مدنظر تھا۔ اور یہ ہر عالم، امام، محدث کے سامنے ہونا ہی چاہئیے۔ منکرین حدیث کو معلوم ہونا چاہئیے کہ سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے عہدخلافت میں احادیث نبوی کی نشرواشاعت کا غیرمعمولی اہتمام فرمایا تھا اور دنیائے اسلام کے گوشہ گوشہ میں ایسے جلیل القدر صحابہ کو اس غرض کے لیے روانہ فرمایا تھا، جن کی پختگی سیرت اور بلندی کردار کے علاوہ ان کی جلالت علمی تمام صحابہ میں مسلم تھی۔ جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ازالۃ الخفاء میں تحریر فرماتے ہیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے :
“ فاروق اعظم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ایک جماعت کے ساتھ کوفہ بھیجا۔ اور معقل بن یسار وعبداللہ بن مغفل وعمران بن حصین کو بصرہ میں مقرر فرمایا اور عبادہ بن صامت اور ابودرداءکو شام روانہ فرمایا اور ساتھ ہی وہاں کے عمال کو لکھا کہ ان حضرات کو ترویج احادیث کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ حضرات جو حدیث بیان کریں ان سے ہرگز تجاوز نہ کیاجائے۔ معاویہ بن ابی سفیان جو اس وقت شام کے گورنر تھے ان کو خصوصیت کے ساتھ اس پر توجہ دلائی۔ ”
حضرت عمررضی اللہ عنہ 7نبوی میں ایمان لائے اور آپ کے مسلمان ہونے پر کعبہ شریف میں مسلمانوں نے نماز باجماعت ادا کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ باطل کے مقابلہ پر حق سربلندہوا۔ اسی وجہ سے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاروق کا لقب عطا فرمایا۔ آپ بڑے نیک،عادل اور صائب الرائے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تعریف میں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کردیا ہے۔ 13 نبوی میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے بعدخلافت اسلامیہ کوسنبھالا اور آپ کے دور میں فتوحات اسلامی کا سیلاب دوردور تک پہنچ گیا تھا۔ آپ ایسے مفکر اور ماہرسیاست تھے کہ آپ کادور اسلامی حکومت کا زریں دور کہا جاتا ہے۔ مغیرہ بن شعبہ کے ایک پارسی غلام فیروزنامی نے آپ کے دربار میں اپنے آقا کی ایک غلط شکایت پیش کی تھی۔ چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس پر توجہ نہ دی۔ مگروہ پارسی غلام ایسا برافروختہ ہوا کہ صبح کی نماز میں خنجر چھپا کر لے گیا اور نماز کی حالت میں آپ پر اس ظالم نے حملہ کردیا۔ اس کے تین دن بعد یکم محرم 24 ھ کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اور نبی اکرم ا اور اپنے مخلص رفیق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں قیامت تک کے لیے سوگئے۔ ( انا للہ واناالیہ راجعون۔ اللہم اغفرلہم اجمعین۔ آمین۔ )
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کے افتتاح کے لیے یا تو صرف بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی کو کافی سمجھا کہ اس میں بھی اللہ کی حمد کامل طور پر موجود ہے یا آپ نے حمد کا تلفظ زبان سے ادا فرمالیا کہ اس کے لیے لکھنا ہی ضروری نہیں۔ یا پھر آپ نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کو ملحوظِ خاطر رکھا ہو کہ تحریرات نبوی کی ابتداصرف بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی سے ہوا کرتی تھی جیسا کہ کتب تواریخ وسیر سے ظاہر ہے۔ حضرت الامام قدس سرہ نے پہلے “ وحی ” کا ذکر مناسب سمجھا اس لیے کہ قرآن وسنت کی اولین بنیاد “ وحی ” ہے۔ اسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت موقوف ہے۔ وحی کی تعریف علامہ قسطلانی شارح بخاری کے لفظوں میں یہ ہے ( والوحی الاعلام فی خفاءوفی اصطلاح الشرع اعلام اللہ تعالیٰ انبیاءہ الشی امابکتاب او برسالۃ ملک او منام اوالہام ) ( ارشاد الساری 48/1 ) یعنی وحی لغت میں اس کو کہتے ہیں کہ مخفی طور پر کوئی چیز علم میں آجائے اور شرعاً وحی یہ ہے کہ اللہ پاک اپنے نبیوں رسولوں کو براہِ راست کسی مخفی چیز پر آگاہ فرمادے۔ اس کی بھی مختلف صورتیں ہیں، یا تو ان پر کوئی کتاب نازل فرمائے یا کسی فرشتے کو بھیج کر اس کے ذریعہ سے خبردے یاخواب میں آگاہ فرمادے، یادل میں ڈال دے۔ وحی محمدی کی صداقت کے لیے حضرت امام نے آیت کریمہ انآاوحينآ اليک کما اوحينا الي نوح ( النساء: 163 ) درج فرماکر بہت سے لطیف اشارات فرمائے ہیں، جن کی تفصیل طوالت کا باعث ہے۔ مختصریہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ عالیہ حضرت آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ،عیسیٰ وجملہ انبیاء ورسل علیہم السلام سے مربوط ہے اور اس سلسلے کی آخری کڑی حضرت سیدنامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہیں۔ اس طرح آپ کی تصدیق جملہ انبیاء ورسل علیہم السلام کی تصدیق ہے اور آپ کی تکذیب جملہ انبیاء ورسل علیہم السلام کی تکذیب ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ( ومناسبۃ الآیۃ للترجمۃ واضح من جہۃ ان صفۃ الوحی الٰی نبینا صلی اللہ علیہ وسلم توافق صفۃ الوحی الٰی من تقدمہ من النبیین ) ( فتح الباری9/1 ) یعنی باب بدءالوحی کے انعقاد اور آیت ( انااوحینا الیک ) الآیۃ میں مناسبت اس طور پر واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول قطعی طور پر اسی طرح ہے جس طرح آپ سے قبل تمام نبیوں رسولوں پر وحی کا نزول ہوتا رہا ہے۔
ذکر وحی کے بعد حضرت الامام نے الحدیث انما الاعمال بالنیات کونقل فرمایا، اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ظاہر کرنا بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخزانہ وحی سے جو کچھ بھی دولت نصیب ہوئی یہ سب آپ کی اس پاک نیت کا ثمرہ ہے جو آپ کو ابتداءعمر ہی سے حاصل تھی۔ آپ کا بچپن، جوانی، الغرض قبل نبوت کا سارا عرصہ نہایت پاکیزگی کے ساتھ گذرا۔ آخر میں آپ نے دنیا سے قطعی علیحدگی اختیار فرماکر غار حرا میں خلوت فرمائی۔ آخر آپ کی پاک نیت کا ثمرہ آپ کو حاصل ہوا اور خلعت رسالت سے آپ کونوازاگیا۔ روایت حدیث کے سلسلہ عالیہ میں حضرت الامام قدس سرہ نے امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی سند کا افتتاح فرمایا۔ حضرت امام حمیدی رحمہ اللہ علم وفضل، حسب ونسب ہر لحاظ سے اس کے اہل تھے اس لیے کہ ان کی علمی وعملی جلالت شان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ میں سے ہیں، حسب ونسب کے لحاظ سے قریشی ہیں۔ ان کا سلسلہ نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحضرت خدیجۃ الکبریٰ ر ضی اللہ عنہاسے جاملتا ہے ان کی کنیت ابوبکر، نام عبداللہ بن زبیربن عیسیٰ ہے، ان کے اجداد میں کوئی بزرگ حمیدبن اسامہ نامی گذرے ہیں، ان کی نسبت سے یہ حمیدی مشہورہوئے۔ اس حدیث کوامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حمیدی سے جو کہ مکی ہیں، لاکر یہ اشارہ فرما رہے ہیں کہ وحی کی ابتدا مکہ سے ہوئی تھی۔
حدیث ( انماالاعمال بالنیات ) کی بابت علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وھذاالحدیث احد الاحادیث التی علیھا مدار الاسلام و قال الشافعی واحمد انہ یدخل فیہ ثلث العلم ” ( ارشاد الساری 56,57/1 ) یعنی یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا دارومدارہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ جیسے اکابرامت نے صرف اس ایک حدیث کو علم دین کا تہائی یانصف حصہ قرار دیا ہے۔ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور بھی تقریباً بیس اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمایا ہے۔ بعض علماءنے اسے حدیث متواتر بھی قرار دیا ہے۔اس کے راویوں میں سعدبن ابی وقاص، علی بن ابی طالب، ابوسعیدخدری، عبداللہ بن مسعود، انس، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ، جابربن عبداللہ، معاویہ بن ابی سفیان، عبادۃ بن صامت عتبہ بن عبدالسلمی، ہلال بن سوید، عقبہ بن عامر، ابوذر عقبہ بن المنذر عقبہ بن مسلم اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی نقل کئے گئے ہیں۔ ( قسطلانی رحمہ اللہ )
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع صحیح کو اس حدیث سے اس لیے شروع فرمایا کہ ہر نیک کام کی تکمیل کے لیے خلوص نیت ضروری ہے۔ احادیث نبوی کا جمع کرنا، ان کا لکھنا، ان کا پڑھنا، یہ بھی ایک نیک ترین عمل ہے، پس اس فن شریف کے حاصل کرنے والوں کے لیے آداب شرعیہ میں سے یہ ضروری ہے کہ اس علم شریف کو خالص دل کے ساتھ محض رضائے الٰہی ومعلومات سنن رسالت پناہی کے لیے حاصل کریں، کوئی غرض فاسد ہرگز درمیان میں نہ ہو۔ ورنہ یہ نیک عمل بھی اجروثواب کے لحاظ سے ان کے لیے مفیدعمل نہ ہوسکے گا۔ جیسا کہ اس حدیث کے شان ورود سے ظاہر ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت ام قیس نامی کو نکاح کا پیغام دیا تھا، اس نے جواب میں خبردی کہ آپ ہجرت کرکے مدینہ آجائیں توشادی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ وہ شخص اسی غرض سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچا اور اس کی شادی ہوگئی۔ دوسرے صحابہ کرام اس کو مہاجر ام قیس کہا کرتے تھے۔ اسی واقعہ سے متاثر ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔
حضرت امام قسطلانی فرماتے ہیں۔ ( واخرجہ المولف فی الایمان والعتق والہجرۃ والنکاح والایمان والنذور وترک الحیل ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجۃ واحمد والدارقطنی وابن حبان والبیھقی ) یعنی امام بخاری رحمہ اللہ اپنی جامع صحیح میں اس حدیث کو یہاں کے علاوہ کتاب الایمان میں بھی لائے ہیں اور وہاں آپ نے یہ باب منعقد فرمایا ہے ( باب ماجاءان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ ولکل امرءما نوی ) یہاں آپ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے کہ وضو، زکوۃ، حج روزہ جملہ اعمال خیر کا اجراسی صورت میں حاصل ہوگا کہ خلوص نیت سے بغرض طلب ثواب ان کو کیاجائے۔ یہاں آپ نے استشہاد مزید کے لیے قرآنی آیت کریمہ ( قل کل یعمل علی شاکلتہ ) کونقل کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ شاکلتہ سے نیت ہی مراد ہے۔ مثلاً کوئی شخص اپنے اہل وعیال پر بہ نیت ثواب خرچ کرتا ہے تویقینا اسے ثواب حاصل ہوگا۔ تیسرے امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب العتق میں لائے ہیں۔ چوتھے باب الہجرۃ میں پانچویں کتاب النکاح میں چھٹے نذورکے بیان میں۔ ساتویں کتاب الحیل میں۔ ہرجگہ اس حدیث کی نقل سے غرض یہ ہے کہ صحت اعمال وثواب اعمال سب نیت ہی پر موقوف ہیں اور حدیث ہذا کا مفہوم بطور عموم ہر دوصورتوں کوشامل ہے۔ اس حدیث کے ذیل میں فقہاءشوافع صرف صحت اعمال کی تخصیص کرتے ہیں اور فقہاءاحناف صرف ثواب اعمال کی۔ حضرت مولاناانورشاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہردو کی تغلیط فرماتے ہوئے امام المحدثین بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہی کے موقف کی تائید کی ہے کہ یہ حدیث ہر دوصورتوں کو شامل ہے۔ ( دیکھو انوارالباری 16,17/1 )
نیت سے دل کا ارادہ مراد ہے۔ جوہرفعل اختیاری سے پہلے دل میں پیدا ہوتا ہے، نماز، روزہ، وغیرہ کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا غلط ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگراکابر امت نے تصریح کی ہے کہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کا ثبوت نہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے نہ صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے، لہٰذا زبان سے نیت کے الفاظ کا ادا کرنا محض ایجادبندہ ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔
آج کل ایک جماعت منکرین حدیث کی بھی پیدا ہوگئی ہے جو اپنی ہفوات کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی بھی استعمال کیا کرتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ روایت حدیث کے خلاف تھے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کو حضرت عمررضی اللہ عنہ کی روایت سے شروع فرمایا ہے۔ جس سے روزروشن کی طرح واضح ہو گیا کہ منکرین حدیث کا حضرت عمررضی اللہ عنہ پر یہ الزام بالکل غلط ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ خود احادیث نبوی کو روایت فرمایا کرتے تھے۔ ہاں صحت کے لیے آپ کی طرف سے احتیاط ضرور مدنظر تھا۔ اور یہ ہر عالم، امام، محدث کے سامنے ہونا ہی چاہئیے۔ منکرین حدیث کو معلوم ہونا چاہئیے کہ سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے عہدخلافت میں احادیث نبوی کی نشرواشاعت کا غیرمعمولی اہتمام فرمایا تھا اور دنیائے اسلام کے گوشہ گوشہ میں ایسے جلیل القدر صحابہ کو اس غرض کے لیے روانہ فرمایا تھا، جن کی پختگی سیرت اور بلندی کردار کے علاوہ ان کی جلالت علمی تمام صحابہ میں مسلم تھی۔ جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ازالۃ الخفاء میں تحریر فرماتے ہیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے :
“ فاروق اعظم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ایک جماعت کے ساتھ کوفہ بھیجا۔ اور معقل بن یسار وعبداللہ بن مغفل وعمران بن حصین کو بصرہ میں مقرر فرمایا اور عبادہ بن صامت اور ابودرداءکو شام روانہ فرمایا اور ساتھ ہی وہاں کے عمال کو لکھا کہ ان حضرات کو ترویج احادیث کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ حضرات جو حدیث بیان کریں ان سے ہرگز تجاوز نہ کیاجائے۔ معاویہ بن ابی سفیان جو اس وقت شام کے گورنر تھے ان کو خصوصیت کے ساتھ اس پر توجہ دلائی۔ ”
حضرت عمررضی اللہ عنہ 7نبوی میں ایمان لائے اور آپ کے مسلمان ہونے پر کعبہ شریف میں مسلمانوں نے نماز باجماعت ادا کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ باطل کے مقابلہ پر حق سربلندہوا۔ اسی وجہ سے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاروق کا لقب عطا فرمایا۔ آپ بڑے نیک،عادل اور صائب الرائے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تعریف میں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کردیا ہے۔ 13 نبوی میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے بعدخلافت اسلامیہ کوسنبھالا اور آپ کے دور میں فتوحات اسلامی کا سیلاب دوردور تک پہنچ گیا تھا۔ آپ ایسے مفکر اور ماہرسیاست تھے کہ آپ کادور اسلامی حکومت کا زریں دور کہا جاتا ہے۔ مغیرہ بن شعبہ کے ایک پارسی غلام فیروزنامی نے آپ کے دربار میں اپنے آقا کی ایک غلط شکایت پیش کی تھی۔ چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس پر توجہ نہ دی۔ مگروہ پارسی غلام ایسا برافروختہ ہوا کہ صبح کی نماز میں خنجر چھپا کر لے گیا اور نماز کی حالت میں آپ پر اس ظالم نے حملہ کردیا۔ اس کے تین دن بعد یکم محرم 24 ھ کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اور نبی اکرم ا اور اپنے مخلص رفیق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں قیامت تک کے لیے سوگئے۔ ( انا للہ واناالیہ راجعون۔ اللہم اغفرلہم اجمعین۔ آمین۔ )