الادب المفرد - حدیث 970

كِتَابُ بَابُ الْمُعَانَقَةِ حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنِ ابْنِ عَقِيلٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ بَلَغَهُ حَدِيثٌ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَابْتَعْتُ بَعِيرًا فَشَدَدْتُ إِلَيْهِ رَحْلِي شَهْرًا، حَتَّى قَدِمْتُ الشَّامَ، فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُنَيْسٍ، فَبَعَثْتُ إِلَيْهِ أَنَّ جَابِرًا بِالْبَابِ، فَرَجَعَ الرَّسُولُ فَقَالَ: جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَخَرَجَ فَاعْتَنَقَنِي، قُلْتُ: حَدِيثٌ بَلَغَنِي لَمْ أَسْمَعْهُ، خَشِيتُ أَنْ أَمُوتَ أَوْ تَمُوتَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((يَحْشُرُ اللَّهُ الْعِبَادَ - أَوِ النَّاسَ - عُرَاةً غُرْلًا بُهْمًا)) ، قُلْتُ: مَا بُهْمًا؟ قَالَ: " لَيْسَ مَعَهُمْ شَيْءٌ، فَيُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مَنْ بَعُدَ - أَحْسَبُهُ قَالَ: كَمَا يَسْمَعُهُ مَنْ قَرُبَ -: أَنَا الْمَلِكُ، لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ وَأَحَدٌ مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَطْلُبُهُ بِمَظْلَمَةٍ، وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَدْخُلُ النَّارَ وَأَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَطْلُبُهُ بِمَظْلَمَةٍ "، قُلْتُ: وَكَيْفَ؟ وَإِنَّمَا نَأْتِي اللَّهَ عُرَاةً بُهْمًا؟ قَالَ: ((بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 970

کتاب معانقے کا بیان سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کے پاس ہے تو میں نے ایک اونٹ خریدا۔ اور اپنی سواری پر ایک مہینے کا سفر طے کرکے ان کے پاس شام پہنچا۔ پتہ چلا تو وہ صحابی سیدنا عبداللہ بن انیس تھے۔ میں نے پیغام بھیجا کہ جابر تمہارے دروازے پر آیا ہے۔ قاصد واپس آیا تو اس نے کہا:جابر بن عبداللہ؟ میں نے کہا:ہاں۔ عبداللہ بن انیس باہر نکلے اور مجھے گلے لگا لیا۔ میں نے کہا:مجھے ایک حدیث کا پتہ چلا ہے جو میں نے نہیں سنی، مجھے خدشہ گزرا کہ آپ کو یا مجھے موت آجائے اور میں براہ راست نہ سن سکوں۔ انہوں نے کہا:میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس طرح جمع فرمائے گا کہ وہ ننگے جسم ہوں گے، بغیر ختنوں کے ہوں گے اور بھم ہوں گے۔‘‘ میں نے عرض کیا:بھم کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہوگی، پھر اللہ تعالیٰ انہیں آواز دے گا جو ہر دور نزدیک والا اس کو برابر سنے گا۔ میں ہی بادشاہ ہوں۔ کوئی جنتی جنت میں داخل نہ ہوگا جب تک کہ اس پر کسی جہنمی کا کوئی حق باقی ہے اور کوئی دوزخی اس وقت تک دوزخ میں داخل نہیں ہوگا جب تک اس پر کسی جنتی کا حق ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا:حقوق کی ادائیگی کیسے ہوگی جبکہ ہم اللہ تعالیٰ کے پاس کپڑوں سے ننگے ہوں گے او اس کے علاوہ بھی کوئی چیز نہ ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نیکیوں اور برائیوں سے لین دین ہوگا۔‘‘
تشریح : (۱)اس سے ثابت ہوا کہ سفر سے آنے والے بھائی کے ساتھ گلے ملنا مستحب ہے۔ نیز معلوم ہوا کہ عام ملاقات میں سلام اور مصافحے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ (۲) حصول حدیث، اس کے لیے تگ و دو، اسے اکٹھا کرنے کا جذبہ دور صحابہ ہی میں موجود تھا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہی اس کا اہتمام شروع کر دیا تھا۔ اس لیے یہ مفروضہ سر تا سر غلط ہے کہ حدیث کی تدوین سو سال بعد شروع ہوئی۔ تابعین کے دور سے باقاعدہ تدوین کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آخری صحابی کے فوت ہوجانے کے بعد اس کا آغاز ہوا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے ہی تابعین کے دور کا آغاز ہو جاتا ہے اور اس دور سے انہوں نے احادیث رسول جمع کرنی شروع کر دیں تھیں۔ (۳) باہمی حقوق کا معاملہ دنیا ہی میں حل کر لینا چاہیے۔ روز محشر صورت حال بہت سنگین ہوگی۔ وہاں کسی کے مارے ہوئے حق کے بدلے میں نیکیاں دینی پڑیں گی یا پھر دوسرے کے گناہ اپنے سر لینے پڑیں گے۔ أعاذنا اللّٰه منه۔
تخریج : حسن:مسند أحمد:۳؍ ۴۹۵۔ (۱)اس سے ثابت ہوا کہ سفر سے آنے والے بھائی کے ساتھ گلے ملنا مستحب ہے۔ نیز معلوم ہوا کہ عام ملاقات میں سلام اور مصافحے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ (۲) حصول حدیث، اس کے لیے تگ و دو، اسے اکٹھا کرنے کا جذبہ دور صحابہ ہی میں موجود تھا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہی اس کا اہتمام شروع کر دیا تھا۔ اس لیے یہ مفروضہ سر تا سر غلط ہے کہ حدیث کی تدوین سو سال بعد شروع ہوئی۔ تابعین کے دور سے باقاعدہ تدوین کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آخری صحابی کے فوت ہوجانے کے بعد اس کا آغاز ہوا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے ہی تابعین کے دور کا آغاز ہو جاتا ہے اور اس دور سے انہوں نے احادیث رسول جمع کرنی شروع کر دیں تھیں۔ (۳) باہمی حقوق کا معاملہ دنیا ہی میں حل کر لینا چاہیے۔ روز محشر صورت حال بہت سنگین ہوگی۔ وہاں کسی کے مارے ہوئے حق کے بدلے میں نیکیاں دینی پڑیں گی یا پھر دوسرے کے گناہ اپنے سر لینے پڑیں گے۔ أعاذنا اللّٰه منه۔