كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ، وَفِي يَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُودٌ يَضْرِبُ بِهِ مِنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ، فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْتَفْتِحُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ)) ، فَذَهَبَ، فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَفَتَحْتُ لَهُ، وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ. ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: ((افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ)) ، فَإِذَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَفَتَحْتُ لَهُ، وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ. ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ - وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ - وَقَالَ: ((افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ، أَوْ تَكُونُ)) ، فَذَهَبْتُ، فَإِذَا عُثْمَانُ، فَفَتَحْتُ لَهُ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ، قَالَ: اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ
کتاب
بلا عنوان
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ طیبہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں تھے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جسے آپ مٹی اور پانی پر مار رہے تھے۔ اس دوران ایک آدمی آیا اور (باغ کی حویلی کا)دروازہ کھولنے کو کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دروازہ کھولو اور اسے جنت کی بشارت دے دو۔‘‘ میں گیا تو وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی بشارت دی۔ پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا:’’اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی خوشخبری دے دو۔‘‘ میں نے دیکھا تو وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی خوشخبری دی۔ پھر ایک تیسرے آدمی نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی تو آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا:’’اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے مستقبل میں پہنچنے والی مصیبتوں پر جنت کی خوشخبری سنادو۔‘‘ میں گیا تو وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے دروازہ کھولا اور آپ کا ارشاد بھی بتایا۔ انہوں نے کہا:اللہ ہی مددگار ہے۔
تشریح :
(۱)اس حدیث سے تینوں خلفائے راشدین کی فضیلت ثابت ہوئی اور ان کا یقینی طور پر جنتی ہونا بھی معلوم ہوا۔ اس لیے رافضیوں کا افترا ان کے صراط مستقیم سے ہٹے ہونے کی دلیل ہے۔
(۲) کسی پیش آمدہ مصیبت کا سن کر اللہ کی مدد اور نصرت طلب کرنی چاہیے جیسا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا۔
تخریج :
صحیح:صحیح البخاري، المناقب، ح:۳۶۹۳۔
(۱)اس حدیث سے تینوں خلفائے راشدین کی فضیلت ثابت ہوئی اور ان کا یقینی طور پر جنتی ہونا بھی معلوم ہوا۔ اس لیے رافضیوں کا افترا ان کے صراط مستقیم سے ہٹے ہونے کی دلیل ہے۔
(۲) کسی پیش آمدہ مصیبت کا سن کر اللہ کی مدد اور نصرت طلب کرنی چاہیے جیسا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا۔