كِتَابُ بَابُ إِذَا ضَرَبَ الرَّجُلُ فَخِذَ أَخِيهِ وَلَمْ يُرِدْ بِهِ سُوءًا حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ جُنُبًا، يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ حَفَنَاتٍ مِنْ مَاءٍ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ: أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، إِنَّ شَعْرِي أَكْثَرُ مِنْ ذَاكَ، قَالَ: وَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِ الْحَسَنِ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، كَانَ شَعْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْ شَعْرِكَ وَأَطْيَبَ
کتاب
اپنے بھائی کی ران پر ہاتھ مارنا جبکہ مقصد اذیت دینا نہ ہو
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب جنبی ہوتے تو پانی کی تین لپیں اپنے سر پر ڈال لیتے۔ حسن بن محمد ابن حنفیہ نے کہا:ابو عبداللہ! میرے بال اس سے بہت زیادہ ہیں (کہ تین لپ کفایت کریں)۔ راوی کہتے ہیں کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ حسن رحمہ اللہ کی ران پر مار کر فرمایا:میرے بھتیجے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تیرے بالوں سے زیادہ اور پاکیزہ تھے۔
تشریح :
ترجمۃ الباب واضح ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے حسن رحمہ اللہ کی ران پر ہاتھ مارا اور یہ ازراہ تنبیہ تھا، نیز واضح فرمایا کہ انسان کو خواہ مخواہ وسوسوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو پاکیزہ ترین انسان تھے، وہ اس پر کفایت کرلیتے تھے تو کسی دوسرے کو کیا مسئلہ ہے؟
تخریج :
صحیح:صحیح مسلم، الحیض، ح:۳۲۹۔
ترجمۃ الباب واضح ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے حسن رحمہ اللہ کی ران پر ہاتھ مارا اور یہ ازراہ تنبیہ تھا، نیز واضح فرمایا کہ انسان کو خواہ مخواہ وسوسوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو پاکیزہ ترین انسان تھے، وہ اس پر کفایت کرلیتے تھے تو کسی دوسرے کو کیا مسئلہ ہے؟